پاکستان: حکومت کا مذاکرات پر اصرار اور طالبان کا انکار
18 دسمبر 2013نيوز ايجنسی روئٹرز کی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وزير اعظم نواز شريف نے منگل سترہ دسمبر کے روز ملکی کابينہ کی کميٹی برائے قومی سلامتی کے ايک اجلاس کی سربراہی کی، جس ميں اعلیٰ حکام نے طالبان کے خلاف عسکری کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے امن مذاکرات پر زور ديا۔ وزير اعظم کے دفتر سے جاری کردہ بيان ميں کہا گيا ہے کہ کميٹی نے ملک ميں انتہا پسندی اور عسکريت پسندی جيسے مسائل سے نمٹنے کے ليے تحريک طالبان پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کی حکمت عملی اختيار کرنے پر زور ديا ہے۔
مقامی ميڈيا پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق اس اجلاس کے بعد وزير اعظم نواز شريف نے پاکستان کے نومنتخب چيف آف آرمی اسٹاف جنرل راحيل کيانی سے بھی ملاقات کی،جس ميں اس موضوع پر بھی بات چيت ہوئی۔
حملے جاری رکھنے کا اعلان
دوسری جانب پاکستانی طالبان کی جانب سے حکومت پاکستان کی اس پيشکش کو فوری طور پر مسترد کر ديا گيا ہے۔ تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا، ’’پچھلی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی امريکا کی کٹھ پتلی ہے۔ حکومت کمزور ہے اور ڈالروں کی بھوکی ہے۔‘‘ شاہد اللہ شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ طالبان کے پاس ايسی معلومات ہيں، جن سے يہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان ميں رياستی سطح پر ايک بڑی ملٹری کارروائی کی تيارياں جاری ہيں اور طالبان اس جنگ کے ليے تيار ہيں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان پہلے بھی پاکستان ميں ملٹری آپريشنز کا سامنا کرتے آئے ہيں۔
واضح رہے کہ پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ نے قريب ايک ماہ قبل اس عسکريت پسند تنظيم کی کمان سنبھالنے کے بعد پاکستان بھر ميں حملے بڑھانے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے وزير اعظم نواز شريف کے گڑھ مانے جانے والے صوبہ پنجاب کو بالخصوص ہدف بنانے کا عنديہ بھی دے رکھا ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق کالعدم تحريک طالبان پاکستان کے سابق رہنما حکيم اللہ محسود کی نومبر ميں ايک امريکی ڈرون حملے ميں ہلاکت کے بعد ملا فضل اللہ ابھی حال ہی ميں پاکستان دوبارہ لوٹے ہيں۔ وہ 2009ء ميں پاکستان علاقے سوات ميں کيے جانے والے ملٹری آپريشن کے بعد افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق فضل اللہ نے ہی خواتين کی تعليم کے ليے آواز اٹھانے والی نوجوان ملالہ يوسف زئی کے خلاف حملے کے احکامات جاری کيے تھے۔ مانا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہيں ہيں۔