پاکستان: بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کی جانب ایک قدم
19 اکتوبر 2012پاکستان میں مارچ 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹرز کی آمد ہوئی ہے۔ پاکستان آل اسٹارز الیون اور انٹرنیشنل ورلڈ الیون کے مابین دو ٹی ٹوئنٹی میچز کراچی میں کھیلے جائیں گے۔ ورلڈ الیون کی کپتانی سری لنکا کے کرکٹ لیجنڈ سنت جے سوریا کر رہے ہیں۔ کراچی پہنچنے پر جے سوریا نے کہا ہے کہ پاکستان غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کی میزبانی کے لیے محفوظ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان مقابلوں کا حصہ بننے پر انہیں خوشی ہے۔ اس ٹیم میں جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ پاکستانی آل اسٹارز کی قیادت شاہد آفریدی کے ہاتھوں میں ہو گی۔
ساڑھے تین سال بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹرز کی موجودگی پر شدید خوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ورلڈ الیون کا یہ دورہ صوبہ سندھ کے کھیلوں کے وزیر محمد علی شاہ کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پران کا کہنا تھا، ’میں نے اسے بطور چیلنج قبول کیا تھا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اس دورے کے بعد پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد شروع ہو جائے گی لیکن کرکٹ کا ماحول ضرور تبدیل ہو گا‘۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق صدر احسان مانی کہتے ہیں کہ ان میچز کے بعد کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔’’ یہ کوشش قابل شتائش ہے۔ ورلڈ الیون میں شامل کھلاڑی یقینی طور پر واپس جا کر اپنے متعلقہ حکام کو پاکستان میں صورتحال کے بارے میں آگاہ کریں گے اور امید ہے کہ پاکستان میں کرکٹ پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔‘‘
لاہور میں ہونے والے حملے کے بعد ہی سے پاکستان کرکٹ بورڈ ملک کے اس ہر دلعزیز کھیل کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کوششوں میں لگ گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے پی سی بی نے اس سال اپریل میں بنگلہ دیش کو پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی بھی کر لیا تھا لیکن ڈھاکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے بنگلہ دیشی ٹیم کو یہ دورہ منسوخ کرنا پڑ گیا تھا۔
پاکستان آل اسٹارز الیون اورانٹرنیشل ورلڈ الیون کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی میچ 20 اور 21 اکتوبر کو کھیلے جائیں گے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی آمد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو گئی ہے۔ ابھی بھی بطور ٹیم کوئی بھی ملک پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گو ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، تاہم اس کے باوجود پی سی بی کو ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا ہے۔
ai / mm (AFP)