پاکستانی کھلاڑیوں میں ریٹائرمنٹ لینے کا رواج کیوں نہیں ؟
8 اپریل 2013لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پھر مشتاق محمد اور ظہیر عباس کے بعد آج محمد یوسف، عبدالرزاق، یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے نامور کرکٹرز بھی اسی روایت کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
مشہور امریکی باکسر ولی پیپ نے کہا تھا کہ باکسنگ میں پہلے ٹانگیں پھر پُھرتی اور آخر میں دوست جواب دے جاتے ہیں مگر پاکستانی اسپورٹس مین کسی ایسے پرنام کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔
پاکستانی کرکٹرز کی طرف سے بروقت ریٹائرمنٹ نہ لینے کی بابت سابق کپتان وسیم اکرم کہتے ہیں کہ آپ کو اپنے جوبن پر ہی کھیل سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے تاکہ لوگ کہہ سکیں کہ یہ ایک سال اور کھیل سکتا تھا مگر ہمارے ہاں ایسی روایت نہیں ہے بلکہ یہاں گھر بھیجا جاتا ہے۔ وسیم اکرم کے مطابق عصر حاضر کی کرکٹ میں عمر کی بجائے کارکردگی ریٹائرمنٹ کا پیمانہ بن چکی ہے اگر آپ کارکردگی دکھا رہے ہیں تو کھیلتے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ عمران خان اور میانداد جیسے چند ایک، جن پاکستانی کرکٹرز نے اگر کسی وجہ سے بروقت ریٹائرمنٹ لی بھی تو وہ صرف واپس لینے کے لیے تھی۔ فضل محمود، سعید احمد، ماجد خان، عبدالقادر، وقاریونس اور خود وسیم اکرم تک ان گنت نام ایسے ہیں، جنہیں سلیکٹرز باہر کا راستہ دکھانے پر مجبور ہوئے۔
جاوید میانداد کے عظیم کیرئیر کا اختتام تو بنگلور کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں کسی المیہ داستان سے کم نہ تھا۔ تمام عمر باؤلرز اور فیلڈرز کی دوڑیں لگوانے والے میانداد اس شام ہانپنے کانپنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے تھے۔
حالیہ اعداد و شمار کی زبانی یونس خان نے گز شتہ پانچ برسوں میں ایک روزہ کرکٹ میں کوئی سینچری نہیں بنائی مگر وہ ون ڈے کا فارمیٹ پھر بھی چھوڑنے کو تیار نہیں جبکہ کئی اور کرکٹرز کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگ رہی۔
اس ضمن میں سابق کپتان راشد لطیف نے، جو آصف اقبال اور انضمام الحق کی طرح پاکستان میں باقاعدہ ریٹائرمنٹ لینے والے مٹھی بھر کرکٹرز میں شامل ہیں، ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے دفتر تک محدود کیے جانے کے خوف سے بھی پاکستانی کھلاڑی ریٹائرمنٹ لینے سے گھبراتے ہیں،’’مثال کے طور پرعبدالرزاق اگر آج ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں تو ان کا ادارہ زرعی ترقیاتی بینک انہیں دفتری کام پرلگا دےگا۔ یہ بھی پاکستان میں ریٹائرمنٹ نہ لینے کی ایک وجہ ہے اور دوسرا کئی ایک کھلاڑی عزت پر پیسے کو ترجیح دینے لگے ہیں‘‘۔
نوشتہ دیوار نہ پڑھنے کا رجحان قومی کھیل ہاکی میں کرکٹ سے بھی بڑھ کر ہے۔ بروقت ریٹائرمنٹ نہ لینے والے آئی ایس دارا، کلیم اللہ، قاضی محب اور شہباز سینئر، جیسے کھلاڑیوں کے کیرئیر کا انجام ان کے شایان شان نہ تھا اور کبھی ریٹائرمنٹ اتنی عام ہوئی کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے 2010ء کے دہلی عالمی کپ میں بارہویں پوزیشن حاصل کرنے والی پوری کی پوری پاکستانی ہاکی ٹیم نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
اب حالت یہ کہ سہیل عباس، وسیم احمد اور ریحان بٹ جیسے کھلاڑی اپنا دور گزارنے کے باوجود یہ کڑوا گھونٹ پینے کو تیار نہیں۔ دیگر کھیلوں میں جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی بھی ریٹائرمنٹ سے صرف نظر کرتے رہے۔ اس بارے میں کھیلوں کے سینئر صحافی اور روزنامہ پاکستان ٹوڈے کے اسپورٹس ایڈیٹر آغا اکبر کہتے ہیں پاکستان میں متبادل کھلاڑی تیار کرنے کا نظام نہیں ہے جب متبادل نہیں آئے گا تو کھلاڑی کیوں پیسے اور شہرت کی چمک کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگا ؟
حالیہ ریسرچ گواہ ہے کہ مایہ ناز ایتھلیٹ ریٹائرمنٹ لینے کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتے بلکہ اس میں سلیکٹرز اور ایڈ منسٹریٹرز کو بھی کردار ادا کرنا پڑتا ہے مگرآغا کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسپورٹس کے ایڈ منسٹریٹرز کمزور ہیں، ایک تو اسپورٹس کے سسٹم نہیں ہیں اور اگر کہیں متبادل کھلاڑی تیار کرنے کے لیے سسٹم قائم کرنے کی گنجائش ہوتی ہے تو ایڈمنسٹریٹرز میں وہ اہلیت نہیں پائی جاتی۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ریٹائرمنٹ کسی اسپورٹس مین کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ ہوتا ہے مگر سابق بھارتی کرکٹر وجے مرچنٹ کے بقول کھلاڑی کواس وقت ریٹائر ہوجانا چاہیے جب لوگ کہیں کہ ’کیوں‘ ناکہ جب وہ کہیں کہ ’کیوں نہیں‘؟
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد