پاکستانی ٹیم کی شکست کی وجوہات کیا تھیں ؟
25 مارچ 2013گیارہ برس میں کسی ون ڈے سیریز کے فیصلہ کن میچ میں ہتھیار ڈالنے کا یہ مسلسل نواں موقع تھا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ماضی کے فاسٹ باؤلر سرفراز نواز نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اس شکست کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹھہرایا۔
سرفرزا نواز کا کہنا تھا کہ پرانے کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس اور کمبینیشن غیر معیاری تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے محمد حفیظ کی کپتانی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی، جس سے ٹیم دو گروہوں میں بٹ گئی۔
سرفرزا نواز کے بقول حفیظ نے صرف اسی میچ میں کارکردگی دکھائی، جس میں وہ کپتان تھے۔
پاکستانی ون ڈے سکواڈ میں دس ایسے کھلاڑی شامل کیے گئے تھے، جو تیس کے پیٹے میں تھے اور یہی امر گرین شرٹس کے پچھلے ایک برس میں چوتھی ون ڈے سیریز ہارنے کا بھی سبب ٹھہرا ۔
کپتان مصباح الحق نے ون ڈے سیریز میں سب سے زیادہ چھپن کی اوسط سے دو سو ستائیس رنز بنائے تاہم پٹے ہوئے مہروں پر انحصار کرنے کے سبب سابق کپتان معین خان نے مصباح کو ہی اس رسوائی کا ذمہ دار قرار دیا۔
معین خان کے مطابق جب جیت کا کریڈٹ کپتان کو ملتا ہے تو ناکامی کا ملبہ بھی اسی پر گرنا چاہیے۔ معین خان نے سوال اٹھایا کہ کوچ وہاں کیا کر رہا ہے؟
اس سیریز میں طویل قامت فاسٹ باؤلر محمد عرفان گیارہ وکٹیں لے کر سرفہرست رہے۔ تاہم ٹیسٹ کی طرح ون ڈے سیریز میں بھی جنوبی افریقہ کے فاسٹ باؤلرز کے سامنے پاکستانی بیٹنگ سر نہ اٹھا سکی۔ یونس خان، شاہد آفریدی اور شعیب ملک کو اس ون ڈے سیریز نے یکسر بے نقاب کر دیا اور تینوں ہر میچ میں ٹیم پر بوجھ بنے رہے۔
پاکستانی ٹیم میں پرانے کھلاڑیوں کی اجارہ داری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاہد آفریدی، جنہیں سلیکٹرز نے بطور باؤلر ٹیم میں شامل کیا تھا، اب دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے ہیں، جنہیں اپنی پچھلی سوا تین سو تیس گیندوں پر بھی وکٹ نہیں مل سکی۔ اسی طرح تینتیس سالہ یونس خان گزشتہ پندرہ ماہ میں انیس کی معمولی اوسط سے رنز بنا کر بھی آفریدی کی طرح سلیکٹرز اور کپتان کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں ۔ اس پر طرہ یہ بھی کہ شعیب ملک آخری تین برسوں میں کوئی نصف سینچری نہیں بنا سکے اور لیکن وہ اب بھی ٹیم کا اٹوٹ انگ ہیں۔
سرفرزا نواز کا کہنا تھا کہ آفریدی، ملک اور یونس خان جیسے تمام پرانے کھلاڑیوں کو ٹیم سے ڈراپ کر دینا چاہیے اور عالمی کپ دو ہزار پندرہ کو سامنے رکھتے ہوئے اسد شفیق اور عمر اکمل جیسے نوجوانوں کو موقع دیا جائے۔
سابق کپتان راشد لطیف کا اس صورتحا ل پر کہنا تھا کہ پاکستان نے نئے باؤلرز کو ضرور گروم کیا ہے مگر ہم نے کسی نئے بیٹسمین کو تیار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور یہ سب کچھ کرکٹ بورڈ کی کمزور اور ناسمجھ مینجمنٹ کے سبب ہو رہا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق محمد حفیظ دنیا کے اکلوتے کرکٹر ہیں، جو اپنی آف اسپن باؤلنگ کی وجہ سے ایک انٹرنیشنل ٹیم میں دس برس سے بیٹنگ اوپن کررہے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ پاتال کی حدوں کو چھونے کے باوجود ان کی اب بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں کیونکہ کپتانی کے لیے چیرمیں پی سی بی کی وہی پہلی پسند ہیں۔
راشد لطیف کہتے ہیں کہ سلیکشن کمیٹی ڈمی ہے اور اس کی بورڈ کے سامنے ایک نہیں چلتی۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ نام نہاد سینئر کھلاڑیوں نے احمد شہزاد، اسدشفیق اور عمر اکمل جیسے اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا راستہ روکنے کے لیے ’تم ہمارے بھائی ہم تم کے قدردان‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور خود پچھلے دروازوں سے آنے والے کرکٹ بورڈ کے عہدیدار اس صورتحال کے سامنے بے بس ہیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ماضی کے عظیم لیگ بریک گگلی باؤلر عبدالقادر کہتے ہیں کہ عالمی کپ دو ہزار پندرہ سر پر ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے مشکل فیصلوں کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ عبدالقادر کا کہنا تھا کہ اب ہمیں نئے کھلاڑیوں کو ہی تیار کرنا ہوگا۔ عبدلقادر کے بقول ہمیں ٹیسٹ ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے لیے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دینا ہوں گی۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد