پاکستانی طالبان کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت میں اضافہ
24 فروری 2014قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شریک ارکان کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ اگر طالبان یکطرفہ لیکن غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتے تو ان کے خلاف کارروائی جاری رکھی جانا چاہیے۔ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حامی حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی عوام اور فوج پر حملے کرنے والوں کے خلاف 'سرجیکل سٹرائیک‘ کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے تیار طالبان کے ساتھ بات کی جائے اور جو بات چیت پر آمادہ نہیں اور نہ ہی تشدد ترک کر رہے ہیں، ان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل قبائلی علاقوں میں پھنسے ہوئے لاکھوں عام شہریوں کو وہاں سے نکالا جائے۔
تحریک طالبان کے خلاف آپریشن کی حامی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین نے کہا کہ دہشت گردوں سے کسی قسم کے مذاکرات محض وقت کا ضیاع ہیں اور اب مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ورنہ عوام کا سیاسی قیادت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
انہوں نے کہا، ’’دہشت گردوں سے مذاکرات ملک دشمنوں سے مذاکرات ہیں۔ یہ عقل کی بات نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے جو فیصلہ سیاسی قیادت نہیں کر پا رہی تھی، وہ فیصلہ عسکری قیادت نے کیا ہے۔ اورانہوں نے جواب بھی دیا ہے۔ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔‘‘
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے رائے عامہ زیادہ ہموار نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان کے ہاتھوں ایف سی کے 23 اہلکاروں کی گردن زنی کے واقعے سے فوجی کارروائی کی مخالف جماعتوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
قبائلی امور کے ماہر اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ کا کہنا ہے کہ فضائیہ اور بری فوج کی جانب سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری ایک پیغام ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کو حکومت کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔
انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہاں تک کہ پہلے تحریک انصاف زیادہ مذاکرات کی حامی تھی۔ لیکن اب انہوں نے بھی اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپریشن ہوا تو وہ فوج کے ساتھ رہیں گے۔ تو میرے خیال میں یہ اچھی بات ہے کہ قوم آہستہ آہستہ اس مسئلے کو سمجھ رہی ہے۔ اب صرف جماعت اسلامی اکیلی رہ گئی ہے، جو ابھی تک سوچ رہی ہے کہ آپریشن اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘
ادھر پیر کے روز قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں اہم طالبان کمانڈر عصمت اللہ شاہین تین ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔ عصمت اللہ کی ہلاکت کو کالعدم تحریک طالبان کے لیے ایک بڑا دھچکا اور اس دہشت گرد تنظیم کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار محمود شاہ کا کہنا ہے کہ عصمت شاہین طالبان کے ایک اہم رہنما سمھجے جاتے تھے اور ان کا تعلق بٹینی قبیلے سے تھا جبکہ محسود قبائل سمھجتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت صرف ان کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت شاہین کی ہلاکت طالبان کے اندر دھڑے بندی اور اختلافات کا پتہ دیتی ہے۔