پاکستانی سرحدی چوکیوں پر طالبان کا حملہ
31 مئی 2014افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحد پر، جہاں ہر جگہ نگرانی کا انتظام نہیں ہے، سرحد پار حملوں کے سلسلے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔ دو پاکستانی فوجی افسران نے کہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے پاکستانی طالبان کی مقامی شاخ کا ہاتھ ہے اور یہ کہ اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے درجنوں طالبان عسکریت پسند ان حملوں ہی کے سلسلے میں گزشتہ رات چُپکے سے سرحد پار کر کے پاکستانی سرزمین پر آئے تھے۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق باغیوں نے قبائلی علاقے باجوڑ میں، جو کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ نیم خود مختار سات قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے، کم از کم دو فوجی چوکیوں کو حملے کا نشانہ بنایا۔ مقامی سرکاری عہدیدار شاہ نسیم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس حملے میں ایک فوجی ہلاک اور دو شدید زخمی ہو گئے۔
شاہ نسیم کے مطابق حملہ آور بھای اسلحے سے لیس تھے اور انہوں نے سرحدی گاؤں ناؤ ٹاپ میں فوج کی متعدد چوکیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ یہ گاؤں باجوڑ کے مرکزی شہر خار سے تقریباً پچاس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب واقع ہے۔
دو فوجی افسروں نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے گن شِپ ہیلی کاپٹر روانہ کیے جبکہ پیدل فوج نے بھی حملہ آوروں کا پیچھا کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس کارروائی میں سولہ باغیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ان پاکستانی فوجی افسروں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملہ آور واپس افغانستان کی طرف فرار ہو گئے۔
ان فوجی افسروں نے اپنے انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے مزید بتایا کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کی مقامی شاخ نے کیا، جس کے باغی بنیادی طور پر قبائلی علاقے باجوڑ اور وادیء سوات سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ لوگ ہمسایہ افغانستان کے کنڑ صوبے کے گاؤں غُنڈ میں چھُپے ہوئے تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے عسکریت پسند باقاعدگی سے سرحد پار کر کے ہمسایہ ملک کی سرزمین پر حملے کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ آزاد ذرائع سے ان حملوں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ابھی طالبان یا کسی اور گروپ نے آج کی کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
اسی دوران فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ایک سینیئر پاکستانی فوجی افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’تقریباً دو سو طالبان عسکریت پسندوں نے سرحد عبور کر کے پاکستانی چوکیوں پر حملے کیے‘۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ حملہ آج ہفتے کو علی الصبح سوا پانچ بجے کے قریب کیا گیا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے کنڑ صوبے کے پولیس چیف عبدالحبیب سید خیل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کو پاکستانی فضائی حملے کے دوران ضلع ڈنگام میں کم از کم 124 راکٹ گرے، جن کے نتیجے میں چار افغان شہری ہلاک اور دَس زخمی ہو گئے۔
اس سے پہلے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ایک افغان سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ آج صبح دو پاکستانی ہیلی کاپٹر سرحد عبور کر کے افغانستان کے کنڑ صوبے میں داخل ہو گئے اور یہ کہ کوئی ایک گھنٹے تک یہ ہیلی کاپٹر حملے کرتے رہے، جن میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ کنڑ ہی میں پاکستانی طالبان کا موجودہ سربراہ ملا فضل اللہ چھُپا ہوا ہے، جو 2009ء میں پاکستانی وادیء سوات میں پاکستانی فوج کے ایک آپریشن کے بعد سے افغانستان ہی میں ہے۔
فضل اللہ گزشتہ سال ایک امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کا قائد بنا تھا تاہم اسے گروپ کو قابو میں رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی ہفتے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے با اثر رہنما خالد سجنا نے فضل اللہ کے زیر کمان عسکریت پسندوں سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 2007ء سے پاکستانی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا ہے اور تب سے اب تک بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں 6800 سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔