پاکستانی خواتین کی پہلی بار کبڈی ورلڈ کپ میں شرکت
2 دسمبر 2013بھارت میں ہونے والا خواتین کبڈی ورلڈ کپ تیس نومبر سے شروع ہو چکا ہے اور چودہ دسمبر تک جاری رہے گا۔ کبڈی کھیل کا آغاز پاکستان اور بھارت میں تقسیم صوبہ پنجاب سے ہوا تھا اور اب یہ کھیل دنیا کے کئی ممالک میں مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس کھیل کو روایتی طور پر مردوں کا کھیل تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کی ایک محدود تعداد ہی اس سے وابستہ ہے۔
پاکستانی ٹیم کی چوبیس سالہ کھلاڑی سیدہ فریدہ خانم کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کی ورلڈ کپ میں شرکت سے ان کا ایک خواب سچ ثابت ہو گیا ہے۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے بچپن ہی سے کھیلوں کا شوق تھا۔ مجھے کھیلوں کے مختلف قومی مقابلوں میں متعدد مرتبہ منتخب کیا گیا، لیکن میری فیملی نے مجھے کالج یا یونیورسٹی سے باہر کھیلنے کی اجازت کبھی بھی نہیں دی تھی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’جب مجھے کبڈی ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا تو میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں ہر صورت اس میں حصہ لوں گی اور میں نے لاہور میں ٹریننگ کیمپ جوائن کر لیا۔‘‘
فریدہ خانم کے مطابق وہ ٹیم کی بہترین دفاعی کھلاڑی ہیں اور بھارت میں اپنے ملک کی جنگ لڑنے جا رہی ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے علاوہ میزبان بھارت، ایران، برطانیہ، اسپین، ڈنمارک، سکاٹ لینڈ، امریکا، کینیڈا، ارجنٹائن، سیرا لیون اور کینیا کی ٹیمیں بھی شریک ہیں۔
پاکستانی خواتین اس ٹورنامنٹ میں وہ کر دکھانے کے لیے پر عزم ہیں جو پاکستان مردوں کی کبڈی ٹیم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستانی ٹیم کی نائب کپتان سمیرا ظہور کا کہنا تھا، ’’ ہم پاکستان اور اس کی محبت میں اس ٹیم کا حصہ بنی ہیں۔ ہم نے اپنے لحاظ سے بہترین تیاری کی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہماری ٹیم ضرور کامیاب ہو گی۔‘‘
خواتین کی کبڈی ٹیم کی تشکیل کے لیے حکام نے کھیل کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو لکھا تھا کہ وہ اُن لڑکیوں کا ایک گروپ تیار کریں، جن کا پس منظر کھیلوں سے وابستہ ہے۔ لاہور میں ان کھلاڑیوں کی روزانہ ٹریننگ کے آغاز سے پہلے باقاعدگی سے دعا اور تلاوت قرآن کی جاتی تھی۔ ’پاکستان زندہ آباد‘ اور ’اللہ اکبر‘ کے نعروں کے بعد کبڈی کے لیے جسمانی مشقوں کا آغاز ہوتا تھا۔
پاکستانی ٹیم کی کوچ عائشہ قاضی کا کہنا تھا، ’’ ٹیم میں موجود تمام لڑکیوں کا مختلف بیک گراؤنڈ ہے۔ ان میں سے کچھ تو ایتھلیٹس ہیں اور کچھ ویٹ لفٹر۔‘‘
کوچ عائشہ قاضی خود بھی فرسٹ کلاس کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ بیس بال کی بین الاقوامی کھلاڑی ہیں۔
ہیڈ کوچ غلام عباس بٹ کے مطابق لڑکیوں کی ٹیم ان کے اعتماد پر پوری اُترے گی، ’’ مجھے امید ہے کہ ہماری مردوں کی ٹیم ورلڈ کپ جیت جائے گی جبکہ خواتین کی ٹیم بھی مایوس نہیں کرے گی۔ میں نے ان کی ٹریننگ دلجمعی سے کروائی ہے۔ یہ تمام نئی لڑکیاں ہیں اور انہوں نے وہ سب کچھ کیا ہے ، جو میں نے انہیں کرنے کے لیے کہا۔ اسی وجہ سے مجھے امید ہے کہ یہ اچھا کھیل پیش کریں گی۔ ‘‘
پاکستانی ٹیم کو اپنے پول میچوں میں انگلینڈ، میکسیکو اور ڈنمارک کی ٹیموں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کا مقابلہ امریکا، کینیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں سے ہو گا۔