يمن میں کیے جانے والے امريکی فضائی حملے کی تفصيلات کا مطالبہ
18 اپریل 2012یمنی حکام کے مطابق 17دسمبر 2009ء کو ملک کے پہاڑی علاقوں میں واقع ايک دور دراز گاؤں میں ریمورٹ کنٹرول جہاز کے ذریعے ایک حملہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ کارروائی امریکا کی جانب سے کی گئی تھی۔ اب امریکی سول لبرٹی یونین اور آئینی حقوق کے ایک مرکز نے فريڈم آف انفارميشن ايکٹ کے تحت اس حملے کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کيا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے کام کرنے والے ان گروپس کے مطابق اس حملے ميں مجموعی طور پر اکتاليس افراد ہلاک ہوئے تھے جن ميں اکيس بچے جبکہ 14 عورتيں بھی شامل تھيں۔
انسانی حقوق کے ليے کام کرنے والے ان گروپوں کے ايک بيان کے مطابق کارروائی کے حوالے سے حقائق جاننے کے ليے درخواست جمع کرائی جا چکی ہے۔ واقعے کے حوالے سے يہ سوالات بھی اٹھائے گئے ہيں کہ آيا کارروائی ميں ملوث اہلکاروں کو اس بات کا علم تھا کہ جس مقام کو نشانہ بنايا جا رہا ہے وہاں سويلين بھی موجود ہيں۔ اس کے علاوہ يہ جاننے کی درخواست بھی کی گئی ہے کہ واقعے کے بعد اس کے تحقيقاتی عمل کے ليے کيا اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
امريکی ملٹری کی جانب سے اس درخواست کے جواب ميں اب تک کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق روايتی طور پر اس نوعيت کے واقعات ميں امريکی حکام کی جانب سے خاموشی اختيار کر لی جاتی ہے يا ان پر کھلے عام بات چيت نہيں کی جاتی۔
واضح رہے کہ وکی ليکس ويب سائٹ سے شہرت حاصل کرنے والی ايک ويڈيو ميں يمنی حکمران اس وقت کے امريکی افواج کے سربراہ جنرل ڈيوڈ پيٹرياس سے کہہ رہے ہيں کہ وہ القاعدہ کے خلاف کی جانے والی کارروائيوں ميں واشنگٹن کے کردار کو پوشيدہ رکھيں گے۔ خبر ايجنسی کے مطابق اس ويڈيو ميں يمن کے صدر علی عبداللہ صالح امريکی جنرل سے کہہ رہ ہيں، ’ہم يہ کہتے رہيں گے کہ بم ہمارے ہيں، آپ کے نہيں‘۔
واضح رہے کہ يمن ميں ہونے والا يہ فضائی حملہ America's Dangerous Games نامی ايک دستاويزی فلم ميں بھی موضوع بنا ہے جس ميں يمن کے مقامی لوگ يہ بتا رہے ہيں کہ اس حملے کے نتيجے ميں بچوں اور عام لوگوں کی ہلاکتيں ہوئی تھيں۔
as/aba/AFP