ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس، سست اقتصادی نمو زیر غور
25 جنوری 2012دنیا کے 40 ممالک کے سربراہان حکومت، صنعت وتجارت اور اقتصادی شعبے کی ڈھائی ہزار سے زائد معروف شخصیات اگلے پانچ دنوں تک سوئٹزر لینڈ کے سیاحتی مقام داووس میں سر سے سر جوڑے دنیا کو درپیش اقتصادی مسائل اور ان کے حل پر غور و خوض جاری رکھیں گی۔ عالمی اقتصادی فورم کے اس سالانہ اجلاس میں یورو زون کو درپیش قرضوں کے بحران سے لے کر ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام اور اس کے باعث اس پر لگائی جانے والی پابندیاں بھی زیر بحث آنے کی توقع ہے۔
اس کانفرنس سے اہم افتتاحی خطاب آج بدھ کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل کر رہی ہیں، جبکہ جی ٹوئنٹی گروپ کے دیگر اہم رہنما، جن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر بھی شامل ہیں، رواں ہفتے کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے شرکاء سے خطاب کریں گے۔
حالیہ دنوں میں اندرونی خلفشار سے نمٹنے والی ریاستوں تیونس اور تھائی لینڈ کے سربراہان حکومت کے علاوہ افریقی ریاستوں کے سربراہان بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں۔ اس کانفرنس کے دوران ایک اہم موضوع جسے خصوصی توجہ حاصل رہے گی، یہ ہے کہ کیا 20 ویں صدی کا سرمایہ دارانہ نظام 21 ویں صدی کے معاشرے میں زوال کا شکار ہے؟
اس موضوع کے علاوہ اس کانفرنس کے دوران زیر بحث آنے والے دیگر موضوعات میں ’کیپیٹلزم سے جڑے مسائل کا حل‘ ، کیا گلوبلائزیشن اقتصادی اور سیاسی طور پر اپنی آخری حدود تک پہنچ چکی ہے؟ اور یورو زون میں شامل ممالک اس خطے کو درپیش بحران سے کیسے نمٹیں گے؟ وغیرہ شامل ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گائتھنر امریکی معیشت کو درپیش مسائل پر بات کریں گے تو دوسری جانب بھارت اور جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں کے سربراہان کے زیر غور یہ معاملہ رہے گا کہ کیا موجودہ صدی واقعی ایشیا کی صدی ہے؟
تاہم اقتصادی مسائل سے دوچار بعض یورپی ممالک کے رہنما اس کانفرنس میں شریک نہیں ہیں، ان میں یونان، اسپین اور اٹلی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روس اور چین کی طرف سے بھی اس مرتبہ اس کانفرنس میں شرکت کافی محدود ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک