نئے چیف سلیکٹرکو نئے اوپنر اور وکٹ کیپر کی تلاش
10 فروری 2014پاکستان کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ڈی ڈبلیو کو خصوصی انٹرویو میں ماضی کے نامور اوپنرکا کہنا تھا کہ احمد شہزاد نے اپنا لوہا منوالیا ہے مگر ناصر جمشید کے باہر اور حفیظ کے ون ڈاؤن ہونے کے بعد پاکستان ٹیم کو احمد شہزاد کے ساتھی کی تلاش ہے۔
عام سہیل کا مزید کہنا تھا: ’’دنیا کی تمام سرکردہ ٹیموں کے باؤلنگ اور بیٹنگ میں اوپن کرنے والے پیئر مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم اس وقت یہ بات صرف اپنی باؤلنگ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ ہمیں ایسا وکٹ کیپر بھی تلاش کرنا ہوگا جواچھی بیٹنگ کر سکے، آج کل بڑی ٹیموں کی کامیابیاں وکٹ کیپرز کی اچھی بیٹنگ کی مرہون منت ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب میٹ پرائر کاکردگی دکھارہا تھا تو ایشیز انگلینڈ جیت رہا تھا اب جبکہ ہیڈن نے رنز بنائے تو جیت نے آسٹریلوی قدم چوم لیے۔‘‘
عامر سہیل جنہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ بھی مقررکیا گیا ہے کہتے ہیں: ’’نئےکرکٹرز کو فٹنس کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ ہم جسمانی اور ذہنی طور مضبوط ایسے کھلاڑی تیار کرنا چاہتے ہیں جو بہتر ٹیکنیک کے ساتھ مخالف ٹیموں سے ٹکر لے سکیں اور اس کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں امپائرز اور کوچز سے ریفریز تک ہر ایک کی کیپیسٹی بلڈنگ کی جائے گی۔ یہی کھیل کا ترقیاتی منصوبہ ہو گا۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں ٹی وی سپورٹس شوز سلیکشن کے معاملات پر بری طرح اثر انداز ہوتے آئے ہیں مگر عامرسہیل کہتے ہیں کہ اگر سلیکٹرز کو اپنا کام کرنا آتا ہو تو پھر کوئی سلیکشن پر اثر انداز نہیں ہوسکتا: ’’اس سے بچنے کے لیے کپتان اور کوچ کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے کیونکہ سلیکشن تو دستیاب کرکٹرز کے پول سے ہی ہونی ہے۔ ‘‘
عمران خان اور حسیب احسن سے مصباح الحق اور اقبال قاسم تک پاکستان میں چیف سلیکٹرز اور کپتانوں کے درمیان ہمیشہ ساس بہو کا جھگڑا چلتا آیا ہے۔ اس بارے میں عامر سہیل کہتے ہیں: ’’کپتان اور کوچ کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے اور دونوں کو دلیل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جھگڑا اس وقت ہوتا ہے جب کپتان اپنی اور سلیکٹرز اپنی بات منوانے پر بضد ہو جائیں۔ اگر ہم کرکٹ کے منطق کو سامنے رکھ کر چلیں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
دیگر ممالک کی طرح سلیکشن کمیٹی کو میچ کی حتمی گیارہ رکنی ٹیم کے انتخاب کا اختیار دینے کے حوالے سے عامر سہیل نے کہا کہ پاکستان میں ایسا بتدریج ہوگا یہ ہمارے ہاں غیر معمولی بات ہے: ’’ہاں اس پر بیٹھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر سلیکشن کمیٹی کو ایسا کرنے کو کہا جائے گا تو ہم اس ذمہ داری کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘