نئے امدادی منصوبے کے ساتھ ٹرمپ کے ایلچی کی غزہ آمد
وقت اشاعت 1 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 1 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- فن لینڈ: اسکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر نئی پابندیاں نافذ
- سرب رہنما میلوراد ڈوڈک کی سزا برقرار، اپیل کی اجازت نہیں، عدالت
- جرمن وزیر خارجہ کی مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کی شدید مذمت
- لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، چار افراد ہلاک
- اسرائیلی افواج غزہ میں خوراک کے متلاشی فلسطینیوں کو ہدف بنا رہی ہیں، ہیومن رائٹس واچ
- کییف پر روسی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اب 31
اس دورے کا مقصد جنگ سے تباہ حال غزہ کے لیے ایک نیا امدادی منصوبہ تیار کرنا ہے، اسٹیو وٹکوف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعہ کے روز غزہ کا دورہ کیا، وہ جنگ کے آغاز کے بعد غزہ کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار بن گئے۔ وٹکوف نے رفح میں امریکی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" (جی ایچ ایف) کے تحت جاری امدادی منصوبے کا معائنہ کیا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ غزہ میں بڑھتے ہوئے ہلاکت خیز حالات کا ایک سبب بھی بن رہا ہے۔
امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ ان کے اس دورے کا مقصد جنگ سے تباہ حال غزہ کے لیے ایک نیا امدادی منصوبہ تیار کرنا ہے۔
ان کے دورے کے چند گھنٹوں بعد،فلسطین کے طبی ذرائع نے اطلاع دی کہ اسرائیل کی افواج نے رفح میں جی ایچ ایف کے ایک مرکز کے قریب تین فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے واقعے کی تحقیقات کرنے ہونے کی تصدیق کی ہے اور دعویٰ کیا کہ فوج نے ’’مشکوک افراد کے ایک گروہ‘‘ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ہوائی فائرنگ کی، جو امدادی مقام سے کئی سو میٹر دور تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، مئی میں جی ایچ ایف کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو اسرائیلی افواج نے گولی مار کر ہلاک کیا۔
اقوام متحدہ نے جی ایچ ایف کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادارے کا مؤقف ہے کہ یہ تنظیم امداد کی تقسیم ایسے طریقے سے کرتی ہے جو نہ صرف خطرناک ہیں بلکہ انسانی ہمدردی کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں، جس کے باعث علاقے میں غذائی بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔
ادھر جی ایچ ایف کا دعویٰ ہے کہ ان کے تقسیم کاری کے مراکز پر کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، اور وہ اقوام متحدہ سے بہتر انداز میں امداد فراہم کر رہے ہیں۔
وٹکوف کے ہمراہ غزہ کا دورہ کرنے والے امریکہ کے اسرائیل میں سفیر مائیک ہکبی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر ایک تصویر شیئر کی جس میں بھوک کے شکار فلسطینی شہری خاردار تاروں کے پیچھے نظر آ رہے ہیں، اور پس منظر میں ایک بڑا امریکی پرچم لگا جی ایچ ایف کا پوسٹر موجود ہے، جس پر لکھا تھا، "10 کروڑ کھانے فراہم کیے گئے"۔
جی ایچ ایف کے ترجمان چیپن فے نے ایک بیان میں کہا،"صدر ٹرمپ غزہ کی صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ ترجیح عام شہریوں کو خوراک دینا ہے، نہ کہ حماس کو۔"
بیان کے ساتھ وٹکوف کی تصاویر بھی جاری کی گئیں جن میں وہ خاکی کیموفلاج شرٹ، فلیگ جیکٹ اور 'میک امریکہ گریٹ اگین' کیپ پہنے نظر آ رہے تھے، جس کے پچھلے حصے پر ٹرمپ کا نام کشیدہ تھا۔
فے نے کہا، "ہمیں فخر ہے کہ ہم نے امریکی وفد کو بریفنگ دی، اپنے آپریشنز دکھائے اور 10 کروڑ کھانے فراہم کرنے کے اثرات پر روشنی ڈالی۔"
وٹکوف نے سوشل میڈیا پر مزید بتایا کہ انہوں نے دیگر امدادی اداروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس دورے کا مقصد صدر ٹرمپ کو غزہ کی انسانی صورتحال سے آگاہ کرنا اور خوراک و طبی امداد کی مؤثر ترسیل کے لیے حکمت عملی مرتب کرنا تھا۔‘‘
یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک روز قبل وٹکوف نے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ غزہ کی تباہ کن صورتحال اور وہاں 22 لاکھ سے زائد شہریوں کو درپیش قحط کے باعث اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس دوران غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے جمعہ کے روز بتایا کہ اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں کم از کم 22 فلسطینی ہلاک ہو گئے، جن میں آٹھ افراد وہ بھی شامل ہیں جو جنگ سے متاثرہ علاقے میں خوراک کی امداد حاصل کرنے کے انتظار میں تھے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنوبی غزہ میں ایک فضائی حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ وسطی علاقے دیر البلح میں ایک گاڑی کو نشانہ بنائے جانے کے نتیجے میں چار مزید افراد جان کی بازی ہار گئے۔
باسل کے مطابق، اسرائیلی افواج نے غزہ سٹی کے شمالی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے پانچ فلسطینیوں کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ ان افراد کو یہ اطلاع ملی تھی کہ اسرائیلی افواج نے اس علاقے سے انخلا کر لیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے ان واقعات پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ فوجی ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ان واقعات کی تصدیق مخصوص مقامات کے کوآرڈینیٹس کے بغیر نہیں کر سکتی۔
فن لینڈ: اسکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر نئی پابندیاں نافذ
فن لینڈ میں اسکولوں کے دوبارہ کھلنے سے قبل جمعے کے روز موبائل فون کے استعمال پر نئی سخت پابندیاں نافذ کر دی گئیں۔
اعلیٰ معیارِ تعلیم کے لیے مشہور اس یورپی ملک کو حالیہ برسوں میں او ای سی ڈی کی درجہ بندی میں تنزلی کا سامنا رہا ہے، جو 15 سالہ طلبہ کی ریاضی، خواندگی اور قدرتی سائنسز میں مہارت کو جانچتی ہے۔
اس سال اپریل میں منظور کیے جانے والے ’’بیسک ایجوکیشن ایکٹ‘‘ میں ترمیم کے تحت اب 7 سے 16 سال کی عمر کے طلبہ کلاس کے دوران موبائل فون استعمال نہیں کر سکیں گے، سوائے اس کے کہ استاد تعلیم، معاونت یا صحت کی وجوہات کی بنیاد پر اجازت دے۔
فن لینڈ کے سرکاری نشریاتی ادارے Yle کے مطابق مشرقی قصبے وارکاؤس کے ایک اسکول میں تقریباً 700 طلبہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پورے دن کے دوران، حتیٰ کہ وقفے میں بھی، اپنے فون بیگ یا لاکر میں رکھیں۔
مغربی شہر تامپیئر میں، طلبہ کو صرف اسکول کی عمارت سے باہر وقفے کے دوران فون استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
فن لینڈ کی نیشنل ایجنسی فار ایجوکیشن نے قانون سے بھی سخت اقدامات کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھانے کے وقت اور وقفے کے دوران بھی موبائل فون کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔
او ای سی ڈی کی 2022 کی تازہ رپورٹ کے مطابق 41 فیصد فنش طلبہ نے اعتراف کیا کہ ڈیجیٹل ذرائع نے ریاضی کی بیشتر کلاسوں میں انہیں توجہ مرکوز کرنے سے روکا، جو او ای سی ڈی کے اوسط 31 فیصد سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
سرب رہنما میلوراد ڈوڈک کی سزا برقرار، اپیل کی اجازت نہیں، عدالت
بوسنیا میں اپیل کورٹ نے جمعے کے روز بوسنیائی سرب رہنما میلوراد ڈوڈک کو سنائی گئی قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔ بوسنیا کے نسلی سرب حصے کے صدر ڈوڈک کو فروری میں سراجےوو کی ایک عدالت نے ایک سال قید اور چھ سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی کی سزا سنائی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بوسنیا کے 1995 کے امن معاہدے کی نگرانی پر مامور بین الاقوامی ایلچی کے احکامات کی تعمیل نہیں کی۔
جمعے کو عدالت نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے ابتدائی فیصلے کو برقرار رکھا ہے اور اس فیصلے کے خلاف مزید کوئی اپیل کی اجازت نہیں ہے۔
جمعے کو عدالت نے اپنے بیان میں کہا کہ نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے اور "اس فیصلے کے خلاف مزید کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی۔"
ڈوڈک نے مقدمے کو ’’سیاسی انتقام‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور اس کے جواب میں رپبلکا سربسکا کی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت مرکزی حکومت کی پولیس اور عدالتی اداروں کو سرب علاقے میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ بوسنیا کی آئینی عدالت نے مئی میں ان قوانین کو کالعدم قرار دے دیا۔
1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد بوسنیا کو سرب رپبلکا سربسکا اور مسلم-کروات فیڈریشن پر مشتمل دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ہر علاقے کی اپنی حکومت اور پارلیمان ہے، جب کہ مرکزی ادارے محدود اختیارات رکھتے ہیں، جو 35 لاکھ آبادی والے ملک کو محض علامتی طور پر جوڑے ہوئے ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ کی مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کی شدید مذمت
جرمنی کے وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے جمعے کو مغربی کنارے کے دورے کے دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
واڈےفیہول نے طَیبہ کے گاؤں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ایسے اقدامات جرائم ہیں، یہ دہشت گردی ہے اور ان کا احتساب اب لازم ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے دورے کو ان تمام افراد کے ساتھ یکجہتی کی علامت قرار دیا جو آبادکاروں کے تشدد سے متاثر ہو رہے ہیں۔
طَیبہ کو حالیہ مہینوں میں متعدد بار اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سے فلسطینی آبادیوں کے خلاف تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
واڈےفیہول نے کہا، ’’ایک قابض قوت اور آئینی ریاست ہونے کے ناطے اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ سکیورٹی اور قانون کی عملداری کو یقینی بنائے اور ان جرائم پر قانونی کارروائی کرے۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کو فلسطینی عوام کو ان حملہ آوروں سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ برلن یورپی یونین کی سطح پر پرتشدد آبادکاروں کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کے حق میں ہے۔
لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، چار افراد ہلاک
لبنانی وزارت صحت نے آج بروز جمعہ تصدیق کی ہے کہ جمعرات کی شب جنوبی اور مشرقی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے۔ وزارت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق،’’جمعرات کی شام اسرائیلی دشمن کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں کے نتیجے میں چار افراد جان کی بازی ہار گئے۔‘‘
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی لبنان اور مشرقی بقاع وادی میں حزب اللہ کے ایسے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جو ’’اسٹریٹجک ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ کرنے‘‘ کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ان میں سے ایک مقام کو حزب اللہ کا ’’سب سے بڑا درست نشانے والے میزائل بنانے کا مرکز‘‘ قرار دیا۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ایک سال سے زائد جاری رہنے والی لڑائی کے بعد نومبر میں جنگ بندی کر دی گئی تھی۔ تاہم اسرائیل نے فائر بندی کے باوجود لبنان میں روزانہ کی بنیاد پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ گروہ کو غیر مسلح نہیں کیا جاتا، یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔
کاٹز نے جمعرات کو کہا،’’دہشت گرد تنظیم کی بحالی، دوبارہ منظم ہونے یا کسی بھی قسم کی دھمکی کو بھرپور شدت سے کچلا جائے گا۔‘‘
فائر بندی معاہدے کے تحت حزب اللہ کو لتانی دریا کے شمال میں پیچھے ہٹنا تھا، جو اسرائیلی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے جبکہ اسرائیل کو لبنان سے اپنی تمام افواج واپس بلانا تھی مگر اس نے پانچ علاقوں میں فوج برقرار رکھی ہوئی ہے جنہیں وہ اسٹریٹجک حیثیت کا حامل قرار دیتا ہے۔
جمعرات کو ایک خطاب میں لبنانی صدر جوزف عون نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہ اقدام انہوں نے امریکی دباؤ کے تحت کرنے کا عندیہ دیا، حالانکہ حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ ایسا کرنا اسرائیلی مفادات کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہو گا۔
اسرائیلی افواج غزہ میں خوراک کے متلاشی فلسطینیوں کو ہدف بنا رہی ہیں، ہیومن رائٹس واچ
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے آج بروز جمعہ اسرائیلی افواج پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ زدہ غزہ میں امریکی حمایت یافتہ امدادی مراکز کے باہر خوراک کی تلاش میں آنے والے فلسطینی شہریوں کو ہدف بنا کر قتل اور فاقہ کشی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کی بحرانوں اور تنازعات سے متعلق ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر بَیلکِس ولے نے کہا، ’’امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی افواج اور نجی ٹھیکیداروں نے ایک ایسا ناکام، عسکری نوعیت کا امدادی نظام قائم کر رکھا ہے، جس نے امداد کی تقسیم کو روزمرہ کے قتلِ عام میں بدل دیا ہے۔‘‘
تقریباً 22 ماہ سے جاری اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کے نتیجے میں فلسطینی علاقہ قحط کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اقوامِ متحدہ کے ایک ماہرین پر مبنی رپورٹ کے مطابق شہری بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے تحت چار مقامات پر ایک نجی امدادی نظام کی حمایت کی ہے، جس کی حفاظت امریکی فوجی ٹھیکیداروں اور اسرائیلی فوج کے ذمہ ہے۔
جی ایچ ایف نے مئی کے آخر میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں، جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے دیرینہ انسانی امدادی نظام کو عملی طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل نے دو ماہ سے زائد جاری امدادی ناکہ بندی میں نرمی کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد عینی شاہدین، غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی اور اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بارہا اطلاع دی ہے کہ جب بھوکے فلسطینی شہری خوراک حاصل کرنے کے لیےجی ایچ ایف مراکز کے قریب پہنچتے ہیں تو اسرائیلی افواج ان پر گولیاں چلاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 27 مئی سے 31 جولائی کے دوران امداد حاصل کرنے کی کوشش میں کم از کم 859 فلسطینی مارے گئے، جن میں سے اکثریت اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئی۔ بَیلکِس وِلے نے کہا، ’’اسرائیلی افواج نہ صرف فلسطینی شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھ رہی ہیں بلکہ اب انہیں تقریباً روزانہ اس وقت گولی مار رہی ہیں جب وہ اپنے خاندانوں کے لیے خوراک تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی فوج نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ پر اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا، تاہم وہ اس سے پہلے یہ مؤقف اختیار کر چکی ہے کہ اس کی افواج غیر مسلح شہریوں کو نشانہ نہیں بناتیں اور حادثاتی ہلاکتوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی، اسٹیو وِٹکوف کی جانب سے آج جمعے کو کم از کم جی ایچ ایف کے ایک خوراک کی تقسیم کے مرکز کا دورہ کرنے کی توقع ہے، ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب غزہ میں بھوک کے بحران کے حل کے لیے عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
کییف پر روسی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اب 31، ڈرون حملے اب بھی جاری
یوکرینی حکام کے مطابق دارالحکومت کییف پر جمعرات کو کیے گئے روسی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر آج بروز جمعہ 31 تک جا پہنچی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں یہ اضافہ ملبے تلے سے مزید لاشیں برآمد ہونے کے بعد ہوا۔
جمعرات کی شب کیے گئے روسی فضائی حملوں میں ابتدائی طور پر 16 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی تھی، جن میں چھ اور دو سال کے دو بچے اور ایک 17 سالہ لڑکا بھی شامل تھا۔ سول ڈیفنس فورس کے مطابق ان حملوں میں تقریباً 160 افراد زخمی بھی ہوئے۔
اگلی ہی رات روس نے ایک بار پھر ڈرون حملے جاری رکھے، جن می زاپوریژیا کے علاقے میں 63 سالہ شخص ہلاک ہو گیا۔ اسی حملے میں مزید چار افراد زخمی ہوئے۔
ڈنیپروپیٹروفسک میں بھی چار افراد ڈرون حملوں میں زخمی ہوئے، جن میں ایک سالہ بچہ اور 14 سالہ لڑکی شامل ہیں۔ یوکرینی ایئر فورس کے مطابق روس نے تازہ ترین حملوں میں 72 ڈرونز استعمال کیے، جن میں سے 44 کو مار گرایا گیا، جبکہ 28 مختلف مقامات پر آ کر گرے۔
متاثرہ علاقوں میں خارکیف، ڈونیسک، ڈنیپروپیٹروفسک اور کییف شامل ہیں۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جمعے کو بتایا کہ روس نے صرف جولائی کے مہینے میں یوکرین پر حملوں میں 3,800 سے زائد ڈرون اور تقریباً 260 میزائل استعمال کیے۔
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’’ہم اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ، یورپی رہنما اور دیگر شراکت دار صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں اور روس کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ روسی حملوں کو صرف امریکہ، یورپ اور دیگر عالمی طاقتوں کی مشترکہ کاوشوں سے ہی روکا جا سکتا ہے۔