میرا ملک جمہوریت کا زبردست نمونہ ہے، گاؤک
23 مارچ 2012جرمنی کے نئے صدر یوآخم گاؤک نے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں جمہوری اقدار نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا اُس وقت جرمنی کی اتحادی افواج کو خدشہ تھا کہ شاید اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہو سکے۔ ’’میں اپنے ملک کو ایک زبردست جمہوری نمونے کے طور پر دیکھتا ہوں‘‘۔جرمن صدر یوآخم گاؤک اپنی تقاریر کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ مختلف تھا، وہ کسی عام اجلاس سے نہیں بلکہ جرمن پارلیمان اور قوم سے خطاب کر رہے تھے۔
گاؤک گزشتہ صدارتی انتخابات میں سابق صدر کرسٹیان وولف کے مد مقابل امیدوار تھے تاہم وہ دو سال قبل کے انتخابات میں شکست کھا گئے تھے۔ اس مرتبہ فیڈرل کنونشن کے اجلاس میں انہیں 1228میں سے991 ووٹ ملے۔ اپنے خطاب میں گاؤک نے سابق صدر وولف کو انضمام کے حوالے سے ان کی کوششوں پر خراج تحسین بھی پیش کیا۔
گاؤک نے کہا کہ وہ بھی اپنے پیشرو کی انضمام کی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ گاؤک نے کہا کہ بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں سماجی انصاف ہو۔’’ہمارا ملک ایسا ہونا چاہیے کہ اس میں ہر ایک کے لیے سماجی انصاف، جمہوری فیصلوں میں شرکت اور آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع موجود ہوں۔ یہ سب کچھ سیاسی شعبے کی طرف سے مسلط نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک ایسی فلاحی ریاست تشکیل پانی چاہیے، جو خیال بھی رکھے اور با اختیار بھی بنائے‘‘۔
یوآخم گاؤک سماجی کارکن ہونے کے علاوہ پیشے کے اعتبار سے ایک پادری ہیں۔ انہوں نے مذہبی انتہاپسندی کے موضوع پر بھی بات کی۔ گاؤک نے کہا کہ مذہبی انتہاپسند جتنی بھی کوششیں کر لیں وہ اس معاشرے میں پنپ نہیں پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسند جمہوریت کی قدر نہیں کرتے۔’’ میں ان سے واضح الفاظ میں کہتا ہوں آپ کی نفرت ہمیں اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے نہیں روک سکتی۔ ہم اپنے ملک کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
ایسا بہت کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی جرمن صدر کی حلف برداری کی تقریب اتنے پرسکون ماحول میں ہوئی ہو۔ بہت کم ہی ہوا ہے کہ حلف برداری کے دوران ارکان پارلیمان اتنے خوشگوار موڈ میں ہوں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شاید اس کی یہ وجہ ہے کہ اسکینڈل کے باعث مستعفی ہونے والے سابق صدر کرسٹیان وولف کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : حماد کیانی