موسمیاتی تبدیلیاں: سُر وہی رہیں گے، سُرور بدل جائے گا
14 اپریل 2015منگل کے روز یہ غیرمتوقع خیال برطانوی محققین کی جانب سے سامنے آیا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ موسم اس طاقت کا حامل ہے کہ جو ان گیتوں کو بھی تبدیل کر کے رکھ دے گا، جنہیں ہم آج سنتے اور سر دھنتے ہیں۔ موسم بدلے گا تو ان گیتوں کا سرور بھی تبدیل ہو جائے گا۔
اب بِیٹلز کا ’ہیر کمز دا سن‘ یا ’دیکھو سورج آ گیا‘ جیسے گیت ہی لے لیجیے، آپ اس گیت کا مزہ کیسے لے سکتے ہیں، جب شدید گرمی اور لو آپ کو جھلسائے دے رہی ہو اور دم گھٹتا محسوس ہو۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ محقق کیرن ایپلِن نے ویانا میں یورپی ماہرین موسمیات کی یونین کے اجلاس کے موقع پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’یورپ میں گرمی ہوتی ہے، تو لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ آخر موسم گرما آ ہی گیا۔ مگر جب ہر موسم گرما میں درجہ حرارت 40 درجے سینٹی گریڈ ہو اور ایسا دس برس تک جاری رہے۔۔۔ تو اس سے موسم گرما کی بابت لوگوں کے خیالات اور دلچسپیاں تبدیل ہو کر رہ جائیں گی۔‘
ایپلِن اور دیگر پانچ سائنس دانوں نے ڈیٹابیس میں پندرہ ہزار سے زائد گیتوں کا جائزہ لیا ہے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مزاج کا بہت حد تک دارومدار موسم پر بھی ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق، ’موسم سے ہمارے جذبات کا یہ جڑاؤ ہی گلوکاروں اور موسیقاروں کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ گیتوں میں موسم کو پرو دیا جائے کہ وہ عوام کو زیادہ پسند آئیں۔‘
محققین کی اس ٹیم نے پچاس کی دہائی سے آج تک کے ان ہزاروں انگریزی گیتوں کا جائزہ لیا، جو عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ یہ وہ گیت ہیں، جنہیں لوگ ’کاراوکے‘ اور میوزک ٹریک ڈاؤن لوڈ کر کے خود گاتے پھرتے ہیں۔
ایسے پانچ سو گیتوں میں سے، جن کی فہرست رولنگ اسٹون میگزین نے سن 2011 میں جاری کی تھی، سات فیصد موسم سے متعلق تھے۔ محققین کے مطابق زیادہ تر گیتوں میں سورج یا پھر بارش کا ذکر ہے۔ ’’ان گیتوں سے لگتا ہے محبت، مزاج اور موسم کے مابین ایک گہرا تعلق ہے۔‘‘
ان محقیقن کا کہنا ہے، ’پاپ گیتوں میں ہم بڑی آسانی کے ساتھ موسم کو انسانی جذبات اور محسوسات سے جوڑ سکتے ہیں، جس میں سورج مثبت اور بارش ایک منفی جذبے کا استعارہ ہے۔‘