منقسم قبرص کا اتحاد چاہتا ہوں، جو بائیڈن
22 مئی 2014جو بائیڈن نے نکوسیا میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ اس جزیرے کے انضمام کے حوالے سے کوئی امریکی منصوبہ لے کر نہیں آئے ہیں۔ قبرص دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اس کا ایک حصہ یونان کے پاس ہے جبکہ دوسرے کا انتظام ترکی کے ہاتھ میں ہے۔ اس حوالے سے جو بائیڈن قبرص کے دونوں حصوں کے رہمناؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ وہ یونانی قبرص کے قدامت پسند صدر نیکوس اناستاسیادس سے ہونے والی بات چیت میں واشنگٹن اور نکوسیا کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے موضوع پر توجہ مرکوز کریں گے۔ جو بائیڈن نے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر جزیرے کے دوسرے بڑے شہر لیماسول میں رات بسر کی جبکہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات نکوسیا کے صدارتی محل میں ہو گی۔ اس سے قبل شہر کی سڑکوں کو امریکی پرچموں سے سجا دیا گیا ہے۔
اناستاسیادس سے ملاقات کے بعد وہ اقوام متحدہ کی جانب سے قائم بفر زون کو پار کرتے ہوئے قبرص کے دوسرے حصے شمالی نکوسیا جائیں گے۔ اس دوران ترک قبرصی رہنما درویش اروگلو سے ان کی ملاقات طے ہے۔ 1974ء میں ترک فوجوں نے شمالی قبرص پر قبضہ کر لیا تھا اور اس حصے کو ابھی تک صرف ترکی ہی نے تسلیم کیا ہے۔
جو بائیڈن نے نکوسیا پہنچتے ہی یونانی قبرص کے حکام کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کرائی تھی کہ ترک رہنما سے ملاقات کا مطلب امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’واشنگٹن قبرص کی صرف جائز حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور وہ اناستاسیادس کی ہے۔ میرے دورے اور ملاقاتوں سے اس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘‘۔
بائیڈن کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ فروری میں قبرص کے رہنماؤں کی جانب سے جزیرے کے اتحاد کے لیے شروع کیے جانے والے مذکرات جلد از جلد کامیاب ہوں۔ اس دوران انہوں نے اس عمل میں امریکی تعاون کی بھی یقینی دہانی کرائی۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ معاملات کو طے کرنا ان رہنماؤں کا کام ہے اور امریکا اس سلسلے میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
جو بائیڈن رومانیہ سے قبرص پہنچے تھے۔ بخارسٹ میں سیاسی قائدین سے ہونے والی ملاقاتوں میں مرکزی اہمیت روس کے خلاف پابندیوں کے موضوع کو حاصل رہی۔ ذرائع کے مطابق یونانی قبرص کے صدر نیکوس اناستاسیادس کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں بائیڈن ان پر زور دے سکتے ہیں کہ وہ روس کے حوالے سے کیے جانے یورپی فیصلوں کا احترام کریں۔ روس پر عائد پابندیوں کے معاملے کو نکوسیا میں بہت ہی حساس انداز میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ قبرص کے بینکوں میں روسی سرمایہ کاروں کے اکاؤنٹس میں اربوں ڈالر جمع ہیں۔