ملا فضل اللہ واپس پاکستان میں
3 دسمبر 2013آج منگل کوعسکریت پسندوں کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ سخت گیر موقف کے حامل مولانا فضل اللہ کئی برس افغانستان میں مقیم رہنے کے بعد منگل کو اپنے ملک پاکستان لوٹ آئے ہیں۔
ملا فضل اللہ کو گزشتہ ماہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کے ہلاک ہونے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ فضل اللہ 2009ء سے مشرقی افغانستان کے پہاڑوں میں مقیم تھے۔ تب اُن کی اور اُن کے پیروکار طالبان جنگجوؤں کی مغربی وادی سوات میں جاری دو سالہ حکمرانی ایک بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے ختم ہوئی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا اس بارے میں کہنا تھا، "فضل اللہ قبائلی علاقوں میں ایک نامعلوم مقام سے طالبان تحریک کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے تھے"۔
تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکریت پسند گروپ افغانستان کے ساتھ ملحقہ سات نیم خود مختار قبائلی علاقوں پر مضبوط گرفت رکھے ہوئے ہیں۔ ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بیانات سے قبل بعض پاکستانی ٹی وی چینلز کی رپورٹوں میں کہا جا رہا تھا کہ فضل اللہ وزیرستان پہنچ چُکے ہیں۔ تاہم شاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ "مولانا فضل اللہ کے وزیرستان میں ہونے کی خبر درست نہیں ہے، وہ قبائلی علاقوں میں ایک نامعلوم مقام پر موجود ہیں"۔ شاہد اللہ شاہد نے یہ بیان اے ایف پی کو دیا۔
تحریک پاکستان طالبان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کو یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے جنوبی وزیرستان کو پاکستانی فوج کے ایک بڑے آپریشن میں 2009ء ہی میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں سے پاک کر دیا گیا تھا۔
دریں اثناء واشنگٹن کی طرف سے شمالی وزیرستان میں اسی طرح کے ایک نئے آپریشن پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ علاقہ گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کی طرف سے مغربی دنیا اور افغانستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کا مرکزبنا ہوا ہے۔
ملا فضل اللہ کے سر کی قیمت پانچ لاکھ ڈالر لگائی گئی ہے۔ اُن پر پاکستانی فوج پر چند سفاکانہ اور ذلت آمیز حملوں کے الزامات عائد ہیں، جن میں جون 2012ء میں ایک حملے کے بعد 17 فوجیوں کے سر قلم کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔