مصر میں کم از کم اننچاس افراد ہلاک
26 جنوری 2014دریں اثناء آج اتوار کے روز مصر کے جزیرہ نما سنائی کے علاقے میں مسلح افراد نے ایک فوجی بس پر حملہ کر کے چار سپاہیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ سنائی میں موجود عسکریت پسندوں نے گزشتہ برس جولائی میں سابق اسلام پسند صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں معزولی کے بعد اپنے سکیورٹی فورسز اور سرکاری اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ حملے قاہرہ تک پھیل چکے ہیں۔
مصر میں پرتشدد واقعات گزشتہ روز، پچیس جنوری کو اس وقت شروع ہوئے جب مصر میں سکیولر اور قدامت پسند حلقوں نے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف تین برس قبل شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی یاد میں ریلیاں نکالنا شروع کیں۔ معزول اسلام پسند صدر محمد مرسی اور مصری فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے حامی ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور تصادم کا آغاز ہو گیا۔ مصری حکومت کے مطابق ان واقعات میں کم از کم اننچاس افراد ہلاک اور دو سو سینتالیس افراد زخمی ہوئے۔ ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ زیادہ تر ہلاکتیں دارالحکومت قاہرہ اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوئیں۔ یہ اعداد و شمار مصر کی وزارت صحت نے جاری کیے ہیں۔
گزشہ روز پچیس جنوری کو مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے آغاز کو تین برس مکمل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار گیارہ میں اٹھارہ روز تک جاری رہنے والی اس عوامی بغاوت کے بعد مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ اس موقع پر مصری حکام نے سکیورٹی میں اضافہ کر دیا تھا۔ تاہم اس دن کا آغاز متعدد دھماکوں کے ساتھ ہوا۔ سکیولر اور رجعت پسند حلقوں نے اس مناسبت سے علیحدہ علیحدہ ریلیاں بھی نکالیں۔ تاہم مخالف گروپوں کی ریلیاں ایک دوسرے کے ساتھ الجھ پڑیں اور صورت حال خوں ریز اور پرتشدد شکل اختیار کر گئی۔
مرسی مخالف دو پہر سے پہلے ہی قاہرہ کے معروف التحریر چوک پر جمع ہو چکے تھے اور وہ ’’دہشت گردی نہیں چاہیے‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
مصری دارالحکومت قاہرہ میں ہفتے کے روز کئی دھماکے بھی ہوئے جن کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے منسلک ایک گروہ انصار بیت المقدس نے قبول کی ہے۔ ایک دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور سولہ زخمی ہوئے۔ جمعرات کے روز بھی مصر میں دھماکے کیے گئے تھے جن میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ مصر کی عبوری حکومت اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔ گزشتہ برس تین جولائی کو مصر میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر محمد مرسی کی حکومت کو عوامی مظاہروں کے برپا ہوجانے کے بعد مصری فوج نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ بعد ازاں اخوان المسلمون نے ملک گیر مظاہروں کا آغاز کیا جس کو عبوری حکومت نے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کی۔ اخوان کے کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں ایک عدالت کی جانب سےحکم کے بعد اخوان المسلمون کے اثاثے ضبط کر لیے گئے تھے۔