مصر میں مرسی کے 529 حامیوں کے لیے سزائے موت
24 مارچ 2014مصری دارالحکومت قاہرہ سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کو موت کی سزائیں ان کے خلاف پولیس اہلکاروں پر حملوں اور ان کے قتل کے الزامات ثابت ہونے پر سنائی گئیں۔ اس مقدمے میں سینکڑوں ملزمان کو یہ سزائیں ان کی غیر حاضری میں سنائی گئیں۔
عدالت میں حاضر ملزمان کی تعداد ڈیڑھ سو سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ مجموعی طور پر 16 ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ مقدمہ گزشتہ کئی عشروں کے دوران مصر میں ایسا پہلا مقدمہ تھا جس میں سینکڑوں ملزمان کو اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ عدالت نے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کے خلاف اپنا فیصلہ صرف دو نشستوں کے بعد ہی سنا دیا۔
مصری وکلاء کے مطابق سزا یافتہ افراد کو ان سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے اور ممکنہ طور پر یہ سزائیں منسوخ بھی کی جا سکتی ہیں۔ لیکن انہی وکلاء کے مطابق جس تیز رفتاری سے عدالت نے اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کو اتنی سخت سزائیں سنائی ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مصر میں عدالتیں کس حد تک سیاسی رنگ اختیار کر چکی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کئی آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ مصر میں جن ملزمان کو موت کی یہ سزائیں سنائی گئی ہیں، وہ اسلام پسند تحریک اخوان المسلمون کے ارکان یا حامی ہیں۔ اخوان کے ایسے حامیوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن اس وقت سے جاری ہے جب گزشتہ برس موسم گرما میں فوج نے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق یہ بات باعث تشویش ہے کہ اس کریک ڈاؤن کے دوران صرف ایک مقدمے میں سوا پانچ سو سے زائد ملزمان کے خلاف سماعت کے سلسلے میں لازمی قانونی طریقہ کار کو نظر انداز کر دیا گیا۔
اس مقدمے کی سماعت قاہرہ سے جنوب کی طرف واقع شہر منیا کی ایک عدالت نے کی۔ پہلے روز کی سماعت کے دوران شدید بحث دیکھنے میں آئی۔ اس دوران جج نے غصے میں وکلائے صفائی کی یہ درخواست بھی رد کر دی کہ دفاع کو سینکڑوں ملزمان کے خلاف کارروائی سے پہلے ضروری عدالتی دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔
پھر آج پیر کے روز دوسرے دن کی سماعت کے اختتام پر جب ملزمان کے خلاف سزاؤں کا اعلان کیا گیا، تو سکیورٹی فورسز نے وکلائے دفاع کو عدالت میں جانے ہی نہ دیا۔ ان وکلا میں سے ایک یاسر زیدان بھی تھے۔ انہوں نے بعد ازاں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’اس فیصلے سے مصر میں عدلیہ ایک ایسا ذریعہ بن گئی ہے، جس کی مدد سے انصاف کو انتقامی ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
قاہرہ میں انسانی حقوق کے ایک مرکز کے سربراہ محمد زری نے کہا ایسے عدالتی فیصلے ناقابل قبول ہیں۔ منیا کے اسی شہر میں کل منگل 25 مارچ کو محمد مرسی اور اخوان المسلمون کے حامی سینکڑوں دیگر ملزمان کے خلاف ایسے ہی ایک اور مقدمے کی سماعت بھی شروع ہونے والی ہے۔ اس مقدمے میں ملزمان کی تعداد 683 ہے، جن میں اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع بھی شامل ہیں۔