مصر قتل و غارت کے قریب ہے، جان میک کین
7 اگست 2013قاہرہ میں امریکی سینیٹر جان میک کین نے اپنے دورے کے دوران صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس انداز کی بے سکونی اور بےچینی مصری عوام میں پائی جاتی ہے یہ انجام کار قتل و غارت کا سبب بن سکتی ہے۔ امریکی ٹیلی وژن چینل سی بی ایس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جان میک کین کا کہنا تھا کہ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مصر میں صورت حال اس قدر مخدوش ہو سکتی ہے اور خون ریز واقعات چند ایام میں رونما ہو سکتے ہیں۔
امریکن ٹیلی وژن سی بی ایس کے پروگرام ایوننگ نیوز کے اینکر پرسن اسکاٹ پیلی نے دونوں سینیٹروں جان میک کین اور لنزی گراہم سے پوچھا کہ کیا اگلے دنوں میں مصر ناکام ہو سکتا ہے تو جواباً سینیٹر میک کین کا خیال تھا کہ یہ ممکن ہے لیکن اگلے ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات اس کا تعین کریں گے کہ مصر کس حد تک ناکام ہوتا ہے۔ سینیٹر لنزی گراہم نے کہا کہ وہ ایک اسٹیپ آگے جانا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق مصر میں اگر بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو یہ ناکام ہو جائے گا اور امریکیوں کے نزدیک مصر کا ناکام ہونا بہت ہی اہم اور معنی رکھتا ہے۔ دونوں سینیٹروں نے مصر کے ناکام ہونے کی وضاحت نہیں کہ وہ اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔
مصر میں اپنے قیام کے دوران سینیٹر جان میک کین اور سینیٹر لنزی گراہم نے مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی کے علاوہ عبوری نائب صدر محمد البرادعی اور عبوری وزیراعظم حازم الببلاوی سے ملاقاتیں کیں۔ سینیٹر میک کین نے جنرل السیسی کے بارے میں بتایا کہ وہ خاصے مضبوط انسان ہیں اور وہ جو مصر اور مصری عوام کے لیے بہترین خیال کرتے ہیں وہی کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ادھر مصر میں سینیٹر جان میک کین کے بیانات سے تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن نے عبوری صدر عدلی منصور کا بیان جاری کیا ہے جس میں سینیٹر جان میک کین کے بیان کو مصری معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے ناقابل برداشت قرار دیا گیا ہے۔ جان میک کین کے بیان کو مصر کے مختلف ٹیلی وژن چینلوں پر مصری عوام کی توہین بھی قرار دیا گیا ہے۔
مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے جاری سفارتی اور غیر ملکی نمائندوں کی کوششیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں ہیں۔ اس حوالے سے بدھ کے روز عبوری حکومت کی جانب سے ناکامی کا اعلان متوقع ہے۔ ایسا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ حکومتی اعلان میں اخوان المسلمون کے مظاہروں کو پرامن نہیں قرار دیا جائے گا اور یہ حکومت کا اشارہ ہو گا کہ وہ اب ان مظاہروں کو بزور طاقت کچلنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہو گی تا کہ اپنے پلان کو آگے بڑھایا جائے جس میں دستوری ریفرنڈم اور نو ماہ کے دوران عام انتخابات کا انعقاد ہے۔