مصری حکام کو طرز حکمرانی تبدیل کرنا ہو گا
25 جولائی 2013عبدالفتح السیسی آج کل مصر کے مرد آہن ہیں۔ وہ مصری فوج کے سربراہ بھی ہیں، وزیر دفاع بھی اور نائب وزیراعظم بھی۔ وہ مزید اختیارات کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بدھ کے روز قاہرہ کی فوجی اکیڈمی سے خطاب کے دوران کیا۔ تاہم اس دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مصری امور کی ماہر ڈیانا الطحاوی کے بقول مصری سلامتی کے ادارے طاقت کا بے جا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر پولیس اور فوج کے سپاہی مظاہرین پر بلاجواز فائرنگ کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جولائی کے آغاز میں محمد مرسی کے حامیوں پر فائرنگ میں اکیاون افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ساتھ ہی مرسی کے حامیوں کی گرفتاریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ’’انہیں حراست میں رکھنے کی وجوہات غیر واضح ہیں۔ جب تک ان افراد پر فرد جرم عائد نہیں کی جاتی، ان کی گرفتاری غیر قانونی ہے‘‘۔
مصری فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی نے فوجی اکیڈمی سے خطاب کے دوران عوام سے جمعہ 26 جولائی کو سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح فوج عوامی رضامندی سے دہشت گردی اور تشدد کے خاتمے کے لیے تمام تر اختیارات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب اخوان المسلون نے بھی جمعے کے روز احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس دوران فریقین کے مابین تصادم کا خطرہ ہے۔ مصرمیں سیاسی امور کی ماہر ھدیٰ صالح نے کہا کہ ’’تمام حلقے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اس حوالے سے سب کی اپنی اپنی تشریحات ہیں۔ مرسی نے انسانی حقوق کو اپنے حامیوں تک ہی محدود رکھا ہوا ہے اور اپوزیشن کا بھی یہی حال ہے۔ اب اخوان المسلون کے حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں کر رہا‘‘۔
ماہرین کہتے ہیں کہ السیسی اخوان المسلون کے خلاف بڑی کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیانا الطحاوی کے بقول مصر کی عبوری حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ انتقامی سیاست پر کاربند نہیں ہے۔’’اس صورتحال میں مصری حکام اور خاص طور پر عدلیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اخوان المسلون اور ان کے حامیوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر قانونی طرز عمل کو روکیں اور کسی کے رتبے یا سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بد امنی پھیلانے والوں کو سزا دیں‘‘۔
مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ آج کی بات نہیں ہے۔ مبارک دور میں بھی حکومتی ادارے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بناتے اور انہیں قتل تک کرتے رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کیونکہ پولیس، فوج اور خفیہ اداروں میں ابھی بھی وہی لوگ موجود ہیں۔