ماحولیاتی تبدیلی: سیاسی عزم کے ساتھ ساتھ انفرادی کوششیں ناگزیر
13 نومبر 2009کوپن ہیگن کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں جرمن موسمیاتی سائنس دان مجیب لطیف نےحالیہ دنوں میں ہی بون شہرمیں ایک لیکچر دیا۔ ’’موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج، ہمیں کیا کرنا ہو گا‘‘ کے عنوان سے دئے گئے اس لیکچر میں کیل یونیورسٹی کے لائپزگ انسٹی ٹیوٹ برائے میرین سائینسز کے پروفیسر نے خبردار کیا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے بارے میں عام لوگوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔
مجیب لطیف نے کہا:’’اس وقت ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی ابتداء پر ہیں۔ ہم ان تبدیلیوں کے لئے انسانی اعمال کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ 100 سالوں کے دوران عالمی درجہ حرارت میں 0.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اگر ہم نے اس بارے میں کو ئی احتیاط نہ برتی تو اس صدی کے اختتام تک یہ اضافہ 4 سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘
موسمیاتی سائنس دان پروفیسر مجیب لطیف نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت بنی نوع انسان کے سامنے سب سے بڑا چلینج موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی ہے۔ ان کے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ انہوں نے کہا: ’’ یہ بہت ضرروی ہے کہ اس وقت ہم سب مل عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں بالخصوص CO2 کو اس صدی کے آخر تک 80 فیصد کم کریں۔ اور اس سلسلے میں ترقی پذیر ممالک کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کو زیادہ کوشش کرنا ہو گی‘‘۔
پاکستانی نژاد جرمن باشندے مجیب لطیف موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی کے لئے ترقی پذیر ممالک پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ وہ سنجیدگی سے اپنے فرائض پورے کریں۔ انہوں کا کہنا ہے: ’’امیر ترین ممالک کی ساکھ کچھ اچھی نہیں ہے اور بنیادی طور پر یہی ممالک مسئلے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ لیکن یہ اس حوالے سے کوئی بہادرانہ قدم اٹھانے کے لئے رضا مند بھی نہیں ہیں اور امریکہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ لیکن دوسری طرف چین اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک بھی عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں‘‘۔
تاہم مجیب لطیف کا کہنا ہے کہ کوپن ہیگن کانفرنس میں اگر امریکہ سبنز مکانی گیسوں میں کمی کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات پر رضامند ہوتا ہے تو یہ صورتحال فوری طور پر بدل بھی سکتی ہے۔
مجیب لطیف نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف حکومتوں اور ریاستوں کے پاس ہی نہیں بلکہ عام صارفین بھی اس حوالے سے اپنا ایک فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی اپنے لائف اسٹائل کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
مجیب لطیف نے کہا:’’ اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک جرمن باشندہ سالانہ دس سے گیارہ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ذمہ دار ہےجبکہ دوسری طرف ایک بھارتی صرف ایک ٹن کا۔ اس تناظر میں جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کوبھی ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی لانا ہو گی۔ تب ہی ترقی یافتہ ممالک کی ساکھ بحال ہو سکے گی۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو کنٹرول کرنے کے لئےطویل المدتی مقاصد میں تمام ممالک کے مابین ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے معاملے پر انصاف کا ایک نظام ہونا چاہئے۔ اسی طرح اس کرہ ارض پر رہنے والا ہر شخص کو صرف ایک حد تک ہی ان گیسوں کا اخراج کرنا چاہئے‘‘۔
ایک چھوٹی کار کا استعمال، گھروں کے چھتوں پر لگائے جانے والا سولر سسٹم ، توانائی کو ضیاع سے بچانا اور اسی طرح کئی ایسے اقدامات ہیں جن سے شہری ماحولیاتی تبدیلی میں کمی لا سکتے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عدنان اسحاق