ماؤنٹ ایورسٹ پر حادثہ، کوہ پیمائی مہمات ملتوی
21 اپریل 2014شیرپا کہلانے والے یہ نپالی گائیڈز اس بات پر بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کو درپیش خطرات کی نسبت اجرت کم ادا کی جاتی ہے۔ نیپال میں اپنے ساتھیوں کی ہلاکت پر پہلے ہی سے رنجیدہ مقامی گائیڈز نے کہا ہے کہ وہ کم اجرت اور فلاح و بہبود کی ناقص صورتحال کی وجہ سے کوہ پیمائی کے سلسلے کو روک دینے کا سوچ رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو علی الصبح پیش آنے والے اس حادثے میں کم از کم تیرہ نیپالی گائیڈ ہلاک ہو گئے تھے جبکہ تین کی لاشیں ابھی بھی برفانی تودے کے نیچے دبی ہوئی ہیں، جنہیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
نیپال میں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی الپائن ایسینٹس انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر مہمات منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کمپنی کے سردار یعنی شیرپا کپتان لکپا ریتا کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم نے اس حادثے میں اپنے پانچ ساتھیوں کو کھو دیا ہے۔ ان کے احترام میں ہم نے تمام مہمات منسوخ کر دی ہیں۔‘‘
17 مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے لکپا ریتا کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ان پہاڑوں پر بدترین دن تھا اور ہلاک ہونے والے تمام شیرپا تھے۔ اب دیگر شیرپا بھی آگے نہیں جانا چاہتے۔‘‘
دوسری جانب امریکی ٹیلی وژن ڈسکوری چینل نے بھی اس حادثے میں شیرپا ٹیم کے اراکین کی ہلاکت کے بعد اپنی ایک مہم منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ چینل ایک جمپ سوٹ پرواز کو براہ راست براڈ کاسٹ کرنے کی پلاننگ کر رہا تھا۔ کوہ ہمالیہ کی اس بلند ترین چوٹی کو سر کرنے میں دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے کوہ پیما لازمی طور پر شیرپا گائیڈز کی مدد پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف سارے علاقے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں بلکہ ساز و سامان کو لانے لے جانے کا کام بھی اچھی طرح سے انجام دے سکتے ہیں۔
نیپال ماؤنٹین ایسو سی ایشن کے سربراہ آنگ ٹشیرنگ شیرپا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی گائیڈز کے خاندانوں کے لیے ایک ویلفیئر فنڈ قائم کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے ہلاک ہونے والے مقامی گائیڈز کے اہلخانہ کو فی کس چالیس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا گیا ہے، تاکہ ان کی تدفین کی جا سکے۔
جمعہ 18 اپریل کو تودے گرنے کا یہ واقعہ 5800 میٹر کی بلندی پر پوپ کارن فیلڈ کے مقام پر پیش آیا، جو خطرناک کھُمبو آئس فال کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے۔ شیرپا کہلانے والے یہ نپالی گائیڈ کوہ پیمائی کا سیزن شروع ہونے سے پہلے چوٹی کو جانے والے رُوٹ پر ضروری تیاریاں عمل میں لانا چاہتے تھے۔ نیچے بیس کیمپ پر ابھی سے دنیا بھر سے کوہ پیماؤں کے ابتدائی گروپ پہنچ چکے ہیں، جو اوپر چوٹی کی جانب جانے کے منتظر ہیں۔
اس چوٹی کو سب سے پہلے 1953ء میں نیوزی لینڈ کے سر ایڈمنڈ ہلیری اور اُن کے نیپالی گائیڈ تینزنگ نورگے نے سر کیا تھا۔ تب سے اب تک چار ہزار سے زیادہ کوہ پیما اس بلند ترین چوٹی کو سر کر چکے ہیں جبکہ اس کوشش میں اس پہاڑ پر اب تک تین سو سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
اس سے پہلے اس چوٹی پر بدترین حادثہ 1996ء میں پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔