لندن اولمپکس، سعودی خواتین ایتھلیٹس کی پریشانی
4 جولائی 2012انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ تھا کہ وہ لندن میں ہونے والے آئندہ اولمپکس میں محض اپنے مرد کھلاڑی بھیجنے کی روایت ختم کرتے ہوئے خاتون کھلاڑیوں کو بھی ان مقابلوں میں شرکت کی اجازت دے۔ اسی باعث سعودی حکام کی طرف سے پیر دو جولائی کو اعلان کیا گیا کہ کوالیفائی کرنے والی خواتین کھلاڑیوں کو لندن اولمپکس میں شرکت کی اجازت دے دی جائے گی۔
سعودی عرب میں پوشیدہ طور پر منعقدہ فٹبال مقابلوں میں شریک ہونے والی خواتین کھلاڑیوں نے ان کوششوں کو سراہا ہے۔ تاہم ان کھلاڑیوں کو خطرہ ہے کہ اولمپکس کے حوالے سے عالمی سطح پر موجودہ جوش وخروش ٹھنڈا پڑنے کے بعد کھیل کے میدان میں ان کی پوشیدہ سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر انہیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
سعودی دارالحکومت ریاض کی ایک خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان رواح عبداللہ کہتی ہیں، ’’ہمیں انتظار کرنا ہوگا، اگر ہم ضرورت سے زیادہ دباؤ ڈالیں گی تو مجھے ان کے ردعمل کا خوف ہے۔۔۔ ہماری ٹیم پر مکمل پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے اور میں جلد بازی کے باعث اس مقام تک جانا نہیں چاہتی، جس کے بعد کوئی راستہ نہ بچے۔‘‘
دوسری طرف رواح کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اور اس کی ٹیم فی الحال اولمپکس جیسے بڑے ایونٹ میں مقابلے کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے کیونکہ انہیں اس کے لیے درکار تربیت ہی حاصل نہیں ہے۔ رواح عبداللہ نے ریاض میں خواتین کے لیے ’التحدی‘ نامی فٹبال کلب 2006ء میں قائم کیا تھا۔ وہ اور ان کی ٹیم کی دیگر 25 رکن خواتین ہفتے میں چار مرتبہ پریکٹس کے لیے جمع ہوتی ہیں۔
سعودی عرب میں کوئی ایسا تحریری قانون نہیں ہے جو خواتین کو کھیلوں میں شرکت سے روکتا ہو، تاہم خواتین کو اسٹیڈیمز وغیرہ میں جانے یا کھیلوں کے لیے دیگر مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حکومتی اسکولوں میں بھی طالبات کی فزیکل تعلیم کے لیے کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ سوئمنگ پُولز وغیرہ میں بھی خواتین کے لیے کوئی خصوصی وقت مقرر نہیں ہے۔ بعض پرائیویٹ کلب یہ سہولت فراہم کرتے بھی ہیں تو اس قدر مہنگے ہیں کہ بہت کم لوگ ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہیں۔
رواح عبداللہ جیسی ایتھلیٹس کے خیال میں اگر لندن اولمپکس میں کھلاڑی خواتین مناسب تربیت کے بغیر شریک ہوتی بھی ہیں تو اس سے فائدے کی بجائے نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، ’’اگر وہ اچھی کارکردگی دکھاتی ہیں تو درست ہے، لیکن اگر وہ اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں تو وہ ہمیں ہی قصور وار ٹھہرائیں گے کہ دیکھا تم لوگوں نے دباؤ ڈالا، وہاں گئے اور ہار گئے۔ تم لوگ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔‘‘
عبداللہ مزید کہتی ہیں، ’’جب ہم چار سال کے دوران اچھی طرح تیاری کرتی ہیں اور وہ ہمیں بھیجنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کہہ سکتی ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم ملک کی نمائندگی کریں تو پھر ہماری تربیت کا بندوبست کریں، ہمیں کوچ فراہم کریں اور ٹریننگ کے لیے درکار سہولیات فراہم کریں، ہم اپنی کارکردگی سے آپ کا سر فخر سے بلند کر دیں گی۔‘‘
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر ژاک روگے Jacques Rogge امید ظاہر کر چکے ہیں کہ سعودی عرب خواتین ایتھلیٹس کو لندن اولمپکس میں شرکت کی اجازت دے دے گا۔
aba/aa (Reuters)