فوج پر حملے نہیں کریں گے، پاکستانی طالبان
13 جنوری 2013پاکستانی طالبان کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک پمفلٹ کے مطابق یہ ’فائر بندی‘ ملک کے دیگر حصوں میں لاگو نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان حملوں میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز سمیت کراچی اور پشاور کی فوجی ایئربیسز پر حملے بھی شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے ہزاروں اہلکار اس وقت افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تعینات ہیں۔ اس علاقے میں طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں تاہم پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں طالبان سے ایسی کارروائیاں روک دینے کا کہا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک سینیئر کمانڈر نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے، جس میں تحریر ہے :’’ اے مجاہدین بھائیو، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ افغان طالبان مُلا محمد عمر کی زیر سربراہی غیر مسلموں سے نبرد آزما ہیں اور جاری جہاد کے سلسلے میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ پمفلٹ میں مزید درج ہے: ’’وہ نہیں چاہتے کہ ہم ان کے خلاف متحد اور منظم ہوں اس لیے وہ ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
روئٹرز کے مطابق طالبان شمالی وزیرستان میں کئی دیگر عسکریت پسندوں کے اتحادی ہیں جو پاکستانی ریاست کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔
شدت پسندی کے حوالے سے اختلافات
بعض طالبان اس بات پر منقسم ہیں کہ ان کا اہم ترین ہدف پاکستانی ریاست ہونی چاہیے یا نیٹو افواج۔ یہ اختلافات گزشتہ برس نومبر میں ایک اہم طالبان کمانڈر مُلا نذیر پر خودکش حملے کے بعد کھُل کر سامنے آئے۔ مُلا نذیر جنوبی وزیرستان کے وزیر قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ روئٹرز کے مطابق انہوں نے پاکستانی فوج کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا تھا جبکہ وہ افغانستان میں نیٹو افواج پر حملوں کے حامی تھے۔
اس حملے کے بارے میں یقین کیا جاتا تھا کہ یہ ان کے مخالف طالبان کمانڈرز کی طرف سے کروایا گیا تھا۔ اس کے بعد وزیر قبائل نے پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو اپنے علاقے سے نکل جانے کا کہا تھا۔ مُلا نذیر کو رواں ماہ ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق پاکستانی فوجی حکام بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ محسود اور اس کے نائب کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ دونوں افراد ایک حالیہ ویڈیو میں ایک ساتھ نظر آئے تھے تاکہ اس طرح کی خبروں کو جھٹلایا جا سکے۔
aba/ng (Reuters)