فرانس کے صدر سارکوزی کے حريف اولاند
20 اپریل 2012پچھلے دنوں فرانس کی سوشلسٹ پارٹی کے اس صدارتی اميدوار اولاند کے ايک انتخابی جلسے ميں شريک ہونے والوں کی تعداد کوئی ايک لاکھ تھی۔ اُن کی جلسہء گاہ سے کوئی دو کلوميٹر دور ہی صدر سارکوزی کا جلسہ بھی ہو رہا تھا اور اس ميں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھی تقريباً ايک لاکھ ہی تھی۔ ليکن رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پوری انتخابی مہم ميں فرانسوا اولاند کی واضح جيت کبھی بھی خطرے سے دوچار نہيں ہوئی۔ اس کے باوجود آج فرانس کے بائيں بازو کے ووٹر کچھ تذبذب کا شکار ہيں۔ سوشلسٹ پارٹی کی ايک نوجوان کارکن ردا نے کہا: ’’پارٹی کے حاميوں ميں وہ جوش و خروش نہيں پايا جاتا جو پانچ سال قبل سيگولين رويال کی صدارتی انتخابی مہم ميں تھا۔ اُس وقت بہت سوں نے خواب ديکھنے کا حوصلہ کيا تھا ليکن اب وہ سکون سے اولاند کی تقرير سننے ہی پر اکتفا کرتے ہيں۔‘‘ ليکن ردا نے کہا کہ اس کا مطلب الزام تراشی نہيں اور يہ پارٹی کے صدارتی اميدوار فرانسوا ہولاند کا قصور بھی نہيں بلکہ اس کی وجہ موجودہ بحران ہےجس نے بہت سے حاميوں کو مايوس اور بد دل کر ديا ہے۔
سوشلسٹ پارٹی کے بہت سے حاميوں سے گفتگو ميں يہ واضح ہو جاتا ہے کہ اولاند ميں لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی صلاحيت تو ہے ليکن وہ ووٹروں کے دلوں تک نہيں پہنچ پا رہے ہيں۔ رائے عامہ کے ايک تازہ جائزے کے مطابق سارکوزی فرانس کی تاريخ ميں سب سے زيادہ ناپسنديدہ صدر ہيں ليکن سارکوزی سے انکار کا مطلب کم از کم پہلے انتخابی مرحلے کی حد تک لازمی طور پر اولاند کی حمايت نہيں ہے۔
فرانسواولاند اور نکولا سارکوزی دونوں پيرس کے ايک مالدار مضافاتی علاقے ميں پلے بڑھے ہيں اور جب کيمروں کی آنکھيں اُن پر لگی نہيں ہوتيں تو وہ ايک دوسرے سے بہت بے تکلفی سے بات کرتے ہيں۔ ہولاند سن 1997 سے لے کر 2008 تک سوشلسٹ پارٹی کے قائد رہے ليکن اُن کے بعد يہ منصب سنبھالنے والی مارتين آبری نے کہا کہ انہوں نے پارٹی کو بہت بری حالت ميں پايا تھا۔
اولاند پارٹی کی طرف سے صدارتی اميدوار اس ليے چنے گئے کيونکہ پارٹی کے اصل پسنديدہ اميدوار ڈومينيک اسٹراؤس کاہن جنسی اسکينڈل ميں ملوث پائے گئے تھے۔
اولاند کی سياسی پاليسی واضح نہيں ہے اور وہ اب تک اس کی وضاحت سے گريز ہی کرتے رہے ہيں۔ وہ اس سلسلے ميں مبہم سی باتيں ہی کرتے ہيں۔ فرانس کے حالات کے اعتبار سے اولاند ايک اعتدال پسند سوشلسٹ ہيں۔ يورپی يونين کے مالياتی پيکج پر دوبارہ مذاکرات اُن نکات ميں شامل ہيں جن کا مقصد اپنے طاقتور ہونے کا تاثر ديناہے۔ جرمن حکومت کو اس پر بڑی فکر ہے کيونکہ اُس نے شديد مزاحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے يہ پيکج منظور کرايا ہے۔ مبصرين يہ سمجھتے ہيں کہ خراب مالی صورتحال اور مالياتی منڈيوں کے دباؤ پر اقتصادی ماہر اولاند کو بہت جلد اُن سوالات کے جوابات دينا ہوں گے جنہيں انہوں نے اب تک بلاجواب رہنے ديا ہے۔
A.Noll/N.scherschun/sas/aa