فرانس اور برطانیہ یورپی یونین میں اصلاحات کے خواہاں
28 مئی 2014یورپی پارلیمنٹ کے اتوار کو ختم ہونے والے انتخابی مرحلے میں یورپی اتحاد کے مخالف گروپ بھی کامیاب رہے ہیں۔ ابھی حتمی نتائج جاری نہیں کیے گئے۔ اگرچہ مرکزی جماعتیں واضح اکثریت حاصل کر چکی ہیں لیکن اتحاد مخالف گروپ بھی بیس سے تیس فیصد نشستیں لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ کامیابی یورپی رہنماؤں کے پریشانی بھی بنی ہوئی ہے۔
اس حوالے سے برطانیہ اور فرانس نے یورپی یونین میں اصلاحات کے لیے زور دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برسلز میں ایک غیرروایتی اجلاس کے لیے پہنچنے کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ یورپی یونین ’بہت بڑی اور بہت حاکمانہ طرز عمل‘ رکھتی ہے اور یہ بات یونین مخالف گروپوں کے اتنا آگے آنے سے ثابت ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’’ووٹنگ سے یہ واضح پیغام ملا ہے کہ ہم اس پیش رفت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں اور ماضی کی طرح کام نہیں کر سکتے۔‘‘
فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے بھی اپنے ہاں انتہائی دائیں بازو کے گروپ نیشنل فرنٹ کی فتح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’فرانس میں جو کچھ ہوا، یورپ کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘
یورپی رہنماؤں کے درمیان مستقبل کی پالیسی ترجیحات پر مشاورت کے لیے اتفاق رائے بھی ہو گیا ہے۔ انہیں یہ طے کرنا ہے کہ یورپی یونین کے اعلیٰ اداروں کی قیادت کس کس کو سونپی جائے۔
یورپی کونسل کے سربراہ ہیرمان فان رومپوئے کا کہنا ہے کہ یورپی رہنماؤں نے انہیں رکن ملکوں کے ساتھ ’یہ مشاورتی عمل آگے بڑھانے‘ کا مینڈیٹ دیا ہے۔
ان ترجیحات میں اقتصادی شرح نمو میں اضافہ اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا شامل ہے۔ فان رومپوئے کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نئی اسمبلی میں بننے والے سیاسی گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے تاکہ یورپی کمیشن کے آئندہ سربراہ کا تقرر عمل میں آ سکے۔
اے ایف پی کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کے اتوار کو مکمل ہونے والے انتخابی مرحلے کے بعد نتائج کے تازہ اَپ ڈیٹس کے تحت یورپی پیپلز پارٹی (ای پی پی) سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ قبل ازیں منگل کو اس جماعت نے کمیشن کی سربراہی کے لیے اپنے امیدوار ژاں کلود ینکر کے نام پر زور دیا تھا۔
دوسرے نمبر پر سوشلسٹس ہیں جن کے ساتھ دیگر جماعتوں نے بھی ای پی پی اور ینکر کی تائید کی ہے۔ سوشلسٹ امیدوار مارٹن شلس نے ینکر کو یاد دلایا ہے کہ ای پی اپی کو 751 رکنی پارلیمنٹ میں کُلی اکثریت کے لیے سوشلسٹوں کی ضرورت ہو گی۔
یورپی رہنما روایتی طور خود کمیشن کے سربراہ کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ تاہم نئے ضوابط کے مطابق انہیں یورپی انتخابات کے نتائج کو بھی مدِ نظر رکھنا ہو گا۔