غزہ پر اسرائیلی حملے اور جنگ بندی کے لیے مذاکرت بھی جاری
7 جولائی 2025
غزہ میں حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اسرائیلی افواج کی تازہ کارروائیوں میں پیر کے روز کم از کم 12 فلسطینی ہلاک ہو گئے، جن میں سے چھ افراد ایک کلینک میں مارے گئے جہاں جنگ زدہ شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بسل نے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ سٹی کے مغربی علاقے ’’الرمال‘‘ میں قائم ایک کلینک پر اسرائیلی فضائی حملے میں چھ افراد مارے گئے اور 15 دیگر زخمی ہوئے۔ یہ کلینک ان درجنوں کلینکس میں سے ایک ہے جہاں 21 ماہ سے جاری جنگ کے باعث بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔
عینی شاہد سلمان قدوم نے بتایا، ’’ہمیں عمارت کے اندر اچانک میزائل اور دھماکوں نے چونکا دیا۔ دھول اور تباہی کے باعث ہمیں معلوم نہیں تھا کہاں جائیں۔‘‘ اے ایف پی کی ویڈیو میں تباہ شدہ کلینک میں بچے اور دیگر افراد ملبے کے اندر خوراک اور سامان تلاش کرتے دکھائی دیے۔
امدادی مرکز کے قریب فائرنگ
غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں بھی امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔ متاثرین اس مقام پر امداد کے حصول کے لیے جمع تھے۔
یہ مرکز ’’غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘چلا رہی ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کا حمایت یافتہ ایک ادارہ ہے۔ مگر اس کی امدادی سرگرمیوں میں بدنظمی اور خونریز واقعات کی مسلسل اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
نظامِ صحت مفلوج
اسی دوران بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (ICRC) نے بتایا، ’’امدادی مراکز کے قریب بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں تیزی آئی ہے، جس نے غزہ کے پہلے سے تباہ حال صحت کے نظام کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔‘‘
رفح میں ریڈ کراس کے 60 بستروں پر مشتمل فیلڈ ہسپتال مسلسل گنجائش سے زائد مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ تنظیم کے مطابق، ’’اکثریتی زخمیوں کو گولیاں لگی ہوئی ہیں، اور طبی عملہ ہر روز زندگی بچانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ
ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی وفد کے پاس حماس کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کا مناسب اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا، ’’دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات کی پہلی نشست کے بعد اسرائیلی وفد کو اتنا اختیار حاصل نہیں کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ کر سکے کیوں کہ اس کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں۔‘‘
قطر میں ہونے والی یہ بات چیت اسرائیلی وزیر اعظم کی وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے قبل اتوار کو شروع ہوئی۔
غزہ میں جنگ بندی میں پیشرفت 24 گھنٹوں میں واضح ہو جائے گی، ٹرمپ
واشنگٹن روانہ ہونے سے پہلے نیتن یاہو نے کہا تھا کہ فائر بندی مذاکرات میں شریک اسرائیلی مذاکرات کاروں کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ ان شرائط پر فائر بندی کا معاہدہ کریں جو اسرائیل نے منظور کی ہیں۔
نیتن یاہو کا اشارہ اس تجویز کی طرف تھا، جسے امریکی صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ ثالثی اسٹیو وٹکوف نے تیار کیا ہے۔
ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی کی ’حتمی‘ تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس
اسرائیل میں ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کی اسرائیل اور حماس کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کیا جاسکتا ہے۔
نیتن یاہو کی ٹرمپ سے ملاقات
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کئی دنوں تک جاری رہنے والے دورے کے لیے ایسے وقت واشنگٹن پہنچے ہیں، جب غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششیں منطقی انجام کے قریب پہنچ رہی ہیں۔
تقریباً چھ ماہ قبل ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد نیتن یاہو کی ان سے یہ تیسری ملاقات ہے۔
روانگی سے قبل نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا، ’’یہ میری (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کے ساتھ تیسری ملاقات ہے، جب وہ چھ مہینے قبل دوبارہ منتخب ہوئے۔‘‘
دریں اثنا، ٹرمپ نے اتوار کو نیو جرسی میں صحافیوں کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ اس ہفتے ہو سکتا ہے۔
کیا حماس اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟
ٹرمپ نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ ہم غزہ پر ایک معاہدے کے قریب ہیں۔ ہم اسے اس ہفتے کر سکتے ہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے کہا کہ وہ امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں کے نمائندوں اور امریکی حکومت کے دیگر اہم عہدیداروں سے بھی بات چیت کریں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا واشنگٹن کا یہ دورہ ایران کے ساتھ اس کی 12 روزہ لڑائی کے اختتام کے دو ہفتوں سے بھی کم وقت کے بعد ہو رہا ہے۔ اس لڑائی کے دوران امریکہ اور اسرائیل نے مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کو تباہ کر دیا تھا۔
اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے مظاہرہ
ہفتے کی شام تل ابیب میں وزارت دفاع کے صدر دفتر کے قریب ایک چوک پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ انہوں نے فائر بندی معاہدے اور غزہ میں موجود تقریباً 50 یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے اسرائیلی جھنڈے لہرائے، نعرے لگائے اور انہوں نھے یرغمالیوں کی تصاویر والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ باقی رہ جانے والے یرغمالیوں میں سے تقریباً 20 اب بھی زندہ ہیں۔ زیادہ تر یرغمالیوں کو سفارتی مذاکرات کے ذریعے رہا کرایا جا چکا ہے جب کہ کچھ کو اسرائیلی فوج نے بھی بازیاب کرایا۔
ادارت: صلاح الدین زین، افسر اعوان