طالبان کا پرانا ساتھی افغانستان میں انسانی حقوق کا علمبردار
3 جولائی 2013خبر رساں ادارے نے اس باریش سماجی کارکن کے ساتھ کابل میں خصوصی گفتگو کی۔ دارالحکومت کابل میں افغانستان کے خود مختار انسانی حقوق کمیشن کے سبزہ زار پر بیٹھے ہوئے عبد الرحمان ہوتک کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اب بھی بہت سے لوگ خواتین کے حقوق کے دشمن ہیں۔ ’’میں افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم لوگوں کے ساتھ کام کرتا رہوں گا تاکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے مسائل کم کیے جا سکیں۔‘‘
افغان صدر حامد کرزئی نے جن پانچ لوگوں کو انسانی حقوق کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا، ان میں عبد الرحمان ہوتک کے نام پر اُن کے پس منظر کی وجہ سے کئی سوال اٹھے تھے۔ نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے حکام بھی ہوتک پر شاکی تھے کیونکہ اُن کے طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر کے ساتھ روابط سے متعلق بھی چہ میگوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ 1994ء میں اقتدار پر طالبان کے قابض ہونے سے پہلے بھی عبد الرحمان ہوتک قندھار میں ’طلوع افغان‘ نامی ایک روزنامے کے مدیر کی حیثیت سے طالبان سے منسلک رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ طالبان کا ابتدائی دنوں میں ساتھ دینے کا مقصد محض جنگ زدہ ملک کی خدمت کرنا تھا:’’افغانستان میں ہر ایک کا کسی نہ کسی گروپ سے تعلق رہا ہے اور میں کسی سے مختلف نہیں ہوں۔‘‘
معروف افغان سماجی کارکن سیما سمر بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو عبد الرحمان ہوتک کی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہی کے لیے نامزدگی سے خوش نہیں۔ ان کے خیال میں اس فیصلے کی وجہ سے خواتین کے حقوق سے متعلق عالمی امدادی تنظیموں سے کیے گئے وعدے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نوی پلے بھی کہہ چکی ہیں کہ افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن میں حالیہ تقرریوں سے اس کی سیاسی آزادی اور افادیت کا حرج ہو گا۔
افغانستان میں گزشتہ قریب بارہ برس کے عرصے میں خواتین کو کئی امور میں ان کے جائز حقوق دوبارہ حاصل ہو پائے ہیں۔ سکیورٹی دستوں میں خواتین کی نمائندگی کی جانب بھی توجہ دی جا رہی ہے جبکہ کابل میں پارلیمان کے اندر خواتین کی مخصوص نشتیں بھی موجود ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں مذہبی رجحانات رکھنے والے سیاست دان بعض ایسے قوانین کی حمایت کرتے ہیں، جن سے خواتین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔