’طالبان‘ نے درجنوں قبائلی اغوا کر لیے
13 اپریل 2014حکام کے مطابق یہ واقعہ افغان سرحد کے قریب اورکزئی اور خیبرایجنسی کے ایک درمیانی علاقے میں پیش آیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے تین حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسلح افراد نے ایک گاؤں میں جاری ایک اجتماع پر ہلا بول دیا اور وہاں سے تقریباﹰ ایک سو افراد کو یرغمال بنا کر لے گئے۔
بعدازاں انہوں نے چالیس افراد کو رہا کر دیا۔ تقریباﹰ ساٹھ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ حکام کے مطابق ان افراد کی رہائی کے لیے اغواکاروں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ یہ معلومات دینے والے حکام نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
ایک اہلکار نے بتایا: ’’اورکزئی اور خیبر ایجنسی کے قبائلی علاقوں کے درمیان حکومت کی کوئی رِٹ نہیں ہے لیکن مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ قبائلی سرداروں کو طالبان کے پاس بھیجا گیا ہے تاکہ وہ انہیں مغویوں کی غیرمشروط رہائی پر تیار کر سکیں۔‘‘
ایک اور اہلکار نے بتایا کہ سکیورٹی ایجنسیوں نے مغویوں کی محفوظ بازیابی کے لیے علاقے میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔
ایک اعلیٰ اہلکار کا کہنا تھا: ’’ہاں انہوں نے ایک سو سے زائد دیہاتیوں کو اغوا کر لیا ہے لیکن بعد میں ان میں سے کچھ کو رہا کر دیا ہے۔ قبائلی سردار کوشش کر رہے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ وہ دوسروں کو بھی چھوڑ دیں گے۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان اس وقت امن بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کے بعد طالبان نے یکم مارچ کو ایک مہینے کے لیے یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کیا تھا جس کی مدت دس اپریل تک بڑھا دی گئی تھی۔
سیز فائر کی مدت میں مزید توسیع کے لیے طالبان کے درمیان پھوٹ پڑ چکی ہے جس کے نتیجے میں اس کے دو حریف گروپوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
اسلام آباد حکومت نے شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات فروری میں شروع کیے تھے، جن کا مقصد گزشتہ سات برس سے جاری شدت پسندی کا خاتمہ تھا۔ تاہم شدت پسندوں کی جانب سے 23 مغوی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر یہ سلسلہ دو ہفتے تک معطل رہا۔ بعدازاں طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی فائر بندی کے اعلان پر مذاکرات بحال ہوئے۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ برس کے انتخابات کے دوران امن مذاکرات کے نکتے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا۔