صومالیہ کی تعمیر نو: لندن کانفرنس میں اہم فیصلے
8 مئی 2013اس کانفرنس میں برسوں سے خانہ جنگی کے شکار چلے آ رہے اس تباہ حال ملک کو مالی امداد کی یقین دہانی کروائی گئی۔ صومالیہ گزشتہ بیس سال سے کسی بھی حکومت کے بغیر چلا آ رہا ہے اور وہاں کی معیشت اور بینکوں کا شعبہ عملاً تباہ ہو چکا ہے۔ لندن کانفرنس میں مالی امداد کی یقین دہانیوں کا مقصد اس ملک میں سلامتی کے اداروں، مالیاتی ڈھانچے اور عدلیہ کی تعمیر نو تھا۔ موغا دیشو سے بیٹینا ریوہل نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ وہاں تعمیر نو کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔
موغادیشو کی بَخارا مارکیٹ افریقہ بھر میں اپنی نوعیت کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تنگ گلیوں اور بازاروں میں ہر وہ چیز ملتی ہے، جس کی انسان کو ضرورت پڑ سکتی ہے، یعنی سبزی اور مویشی، جوتے اور گھریلو استعمال کا ساز و سامان اور پیسہ۔ جگہ جگہ زر مبادلہ کا کاروبارکرنے والے نظر آتے ہیں، جہاں ڈالر اور یورو تبدیل کروائے جا سکتے ہیں۔ رقم بھیجنے یا وصول کرنے کے لیے اُن بینکوں میں سے کسی ایک میں جایا جا سکتا ہے، جو اسلامی بینکاری نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ ہاں کوئی بین الاقوامی بینک ابھی تک موغادیشو میں نہیں تھا تاہم یہ کمی بھی جلد ہی پوری ہو جائے گی۔
عبدالسلام عمر، جو جنوری میں صومالیہ کے مرکزی بینک کے سربراہ بنے تھے، بتاتے ہیں:’’ہم منصوبہ بندی کے ساتھ بینکوں کے شعبے کو پھر سے تشکیل دے رہے ہیں اور بین الاقوامی کاروبار کرنے والے بینک قائم کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک سوِفٹ کوڈ کی بھی ضرورت ہے تاکہ صومالی باشندے رقوم کے بین الاقوامی تبادلے کے عمل میں شریک ہو سکیں۔‘‘
جنوری سے پہلے تک اٹھاون سالہ صومالی نژاد امریکی بینکار عبدالسلام عمر واشنگٹن کے میئر کے لیے کام کر رہے تھے، جہاں اُن کا کام امریکی دارالحکومت کو مالی طور پر دیوالیہ ہو جانے سے بچانا تھا۔ اب اُنہیں جنگ سے تباہ حال اپنے آبائی ملک کی معیشت کو دوبارہ اُس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے مشکل فریضے کا سامنا ہے۔ عبدالسلام عمر کہتے ہیں:’’بائیس سال سے زائد عرصے سے یہاں کوئی مرکزی بینک تھا ہی نہیں۔ ہم سب کچھ نئے سرے سے تشکیل دے رہے ہیں۔ ہم روز ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیں لیکن منزل ابھی بہت دور ہے۔‘‘
دیگر ممالک کے بینکوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھا جائے تو شاید صومالیہ کے مرکزی بینک کو یہ نام دینا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اُس کے پاس نہ تو ملکی کرنسی یعنی صومالی شلنگ کے کوئی ذخائر ہیں اور نہ ہی ملک میں کوئی کاروباری بینک ہیں، جن کی وہ نگرانی کر سکے۔ چونکہ اس سال اپریل سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف بیس سال سے زائد عرصے کے تعطل کے بعد پھر سے صومالیہ کو تسلیم کر چکا ہے، اس لیے عمر کے مطابق اب حالات تیزی سے بدلنے چاہییں۔ تاہم ابھی صومالیہ آئی ایم ایف کا 270 ملین یورو کا مقروض ہے، جس کا مطلب ہے کہ ابھی اُسے مزید قرضے نہیں ملیں گے۔
بینک کے سربراہ عمر کے مطابق اُنہیں تربیت یافتہ ماہرین کی کمی کا سامنا ہے۔ مزید یہ کہ صومالی حکومت کے پاس رقم نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے ابھی چوٹی کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ ایسے میں عمر کو امید ہے کہ بیرونی دنیا میں آباد پڑھے لکھے صومالی اُن کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اُس ملک میں لوٹیں گے، جس میں جگہ جگہ جنگ کی تباہ کاریوں کے آثار نظر آتے ہیں۔
B.Rühl/aa/km