صدارتی انتخاب کے لیے اوباما کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز
13 مارچ 2012باراک اوباما ایران پر اسرائیلی حملے کو روکنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں تاکہ امریکا ایک اور جنگ میں نہ جا پھنسے۔ وہ شام میں جاری قتل عام کو روکنے کے لیے عالمی برادری کے اتفاق رائے کو حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں اور افغانستان میں پے در پے ہونے والے پیچیدہ واقعات نے انہیں مدافعانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک کے اندر عام امریکیوں کے لیے روزمرہ زندگی میں پیش آنے والا ایک مسئلہ پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن کا اثر صدارتی انتخابات کے امیدواروں کی مہم کے دوران بھی نظر آتا ہے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کے مِلر سینٹر میں واقع امریکی صدارت کے موضوع پر تحقیق کرنے والی باربرا پیری نے کہا، ’لوگوں کو اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں ہے کہ اسرائیل کیا کر رہا ہے یا یہ کہ ایران کی پالیسی کیا ہے، مگر مشرق وسطٰی کے تیل پر امریکی انحصار کے باعث ان چیزوں کا ان کی جیبوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ کیا ان واقعات کا لامحالہ انتخابی مہم پر کوئی اثر پڑے گا؟ بے شک، یہ سوالات صدارتی امیدواروں کے سامنے رکھےجائیں گے۔‘
اس کی ایک مثال پٹرول کی قیمتیں ہیں۔ امریکا میں پٹرول کی فی گیلن اوسط قیمت 3.80 ڈالر کے قریب ہے جو رواں برس اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی امیدوار ان قیمتوں میں فوری طور پر کمی کی تجویز دیتا ہے تو وہ رائے دہندگان سے غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔
سیکرٹری داخلہ کین سالازر نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا، ’ہم (تیل کی قیمتوں) کو طے نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارا ان پر کوئی کنٹرول ہے۔ موجودہ صدر اور کانگریس ان قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘
اگرچہ رواں ماہ امریکا میں ملازمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے مگر انتخابات تک اس اچھی خبر کا اثر باقی رہنا یقینی نہیں ہے۔ اوباما یورپ کے اقتصادی استحکام، چین کی سست پڑتی ہوئی معیشت اور اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی جیسے واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے تک امریکی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا ممکنہ پیشگی حملہ تھا مگر افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی اندھا دھند فائرنگ میں سولہ افغان شہریوں کی ہلاکت کے بعد توجہ کا رخ اس جانب مڑ گیا ہے۔
اوباما کے کیمپ کی کوشش ہے کہ معیشت میں ہونے والی مثبت پیشرفتوں کو اپنے حق میں موڑا جا سکے، مگر خارجہ پالیسی کے واقعات ان کوششوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: کشور مصطفٰی